ڈاکٹر محمد سراج الرحمن فاروقی
ہمیں ’’مسلمان‘‘ نام سے نوازا جاکر ایک مستقل امت بنانے کا واحد مقصد جو قرآن میں بیان کیا گیا ہے، اس کی واحد غرض واحد یہ ہے کہ تم اپنے اطراف جنگل کی آگ کی طرح بسنے والے برادران وطن، میں اپنا مسلمان ہونے کا قول و فعل، ظاہری و باطنی، مخفی و ظاہری، سری و اعلانیہ طور پر اسلام کے علمبرداری کی صداقت و گواہی پیش کرو۔ دعوت دین حق کی محنت کی ذمہ داری نبھانا ہے اور انبیا کے بعد امت محمدیہ پر قرض منصبی ہوتی ہے، جس کی ہم سے باز پرس ہوگی۔اس فرض منصبی کا کام جس کا اضافی انعام ہمارے ذمہ دی جاکر ہمیں خاص کر ہندوستان میں منتخب کیا جاکر بھیجا گیا ہے۔ ہند میں اس کو ہم کو نبھانا ہے جو ہمارے جملہ مسائل کا واحد حل ہے، کیا ہم یہ ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اسلام میں ہمیں، زندگی کے اصول ہر زاویے سے بتلادیء گئے۔ رب العالمین کا احسان نہیں کہ واحد آسمانی مذہب کی نعمت سے ہم کو نوازا، اگر میں صرف 32 کروڑ ہندوستانی مسلمانوں پر بھی اسلام کی صداقت کا انکشاف کروں، ہماری حالت زار دیکھ کر ہمیں خود شرم محسوس ہوتی ہے کہ جن برادران وطن سے ہمارا ہرروز ہر جگہ ہر وقت کسی نہ کسی درجہ میں آمنا سامنا، لینا دینا، رہنا سہنا، اٹھنا بیٹھنا، ساتھ جلنا پھرنا ہوتا ہے۔ کیا ایمان والا اپنے اسلام کی چھاپ ان پر چھوڑ رہا ہے، یا خود ان کی تہذیب و تمدن، رہن سہن کے پرکشش خرافات سے ہم اور ہمارا معاشرہ غیر ارادی، غیر شعوری طور پر ابنائے وطن کا تاثر لے نہیں رہا ہے، کیا ہم جانے انجانے میں باطل رسم و رواج، حرام حلال کی تمیز کو تک ہم کیا نہیں بھول رہے ہیں؟ کیا پیغمبرؐ اسلام کی فکر و تڑپ بھول گئے ہیں؟ اگر ہم ہماری روزمرہ کی پیشہ وارانہ زندگی پر سرسری نظر ڈالیں ہم غور کریں کہ کیا ہمارے قول و عمل میں تضاد نہیں ہوگیا ہے؟
سب سے پہلے کروڑوں کی تعداد میں بسنے والی ہندوستانی مسلم اقلیت نہ زبان سے نہ قلم سے، اپنی انداز مسلمانی کے وجود کا اظہار کررہی ہے۔ نہ ہی احساس ہے، جیسا کہ اسے ادا کرنے کا حق ہے اور ذمہ داری بھی، عام حالات کا اگر جائزہ لیں تو مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ مسلمانوں کی زندگی کے طور طریقے مخالف اسلام جاری و ساری ہیں۔ ہماری شادی بیاہ پر نظر ڈالیں پورے راجپوتانہ رسوم سے سے بھرے ہیں۔ گھوڑا جوڑا، آتش بازی، باجہ گاجہ، ناچ گانہ، سانچق، مہندی، دھنگانہ، سہرا پگڑی، تمام باطل ہم کرتے ہیں جیسا کہ مشرکانہ ماحول کرتا ہے اور بڑی زور اور تشہیر سے عقد نکاح کسی مسجد میں منعقد ہوتا ہے، مدعوئین کچھ نماز کے وقت مسجد کے باہر ٹھہرے نماز میں شرکت کئے بنا خطبہ نکاح پر توجہ دیئے بنا، باتوں میں مگن 4، 6 ویڈیو گرافنگ کرتے ہوئے، مسجد کے احترام کو پامال کرتے ہوئے فیشنبل لباس سر پر ٹوپی نہیں، مسجد کے سامنے اپنی سواریاں، دولہے کو سجی سجائی کار ایسے پارک کرتے ہیں، راہ گزاروں کو انتہائی تکالیف اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایسے نکاح کا انعقاد ہوتا ہے ماحول سے یہ لگتا ہے کہ نکاح کرکے امت پر احسان کیا جارہا ہے۔ مسجد کا احترام، راستے کا حق، مقصد نکاح بھی فوت ہوگیا۔ مسلمان یہ شہادت دے رہا ہے کہ ہماری شادی بیاہ میں لوگوں کو تکلیف دینا جائز ہے۔ اے صاحب جائیداد مسلمان اپنے عمل سے یہ گواہی دے رہے ہیں کہ اسلام کا قانون وراثت غلط ہے اور ایام جاہلیت اور غیروں کے رواج صحیح ہیں، ہمارے اپنے شرعی مسائل کا حل مسلمان کورٹ کچیری میں چیالنج کرتا ہوا یہ تاثر دے رہا یہ شریعت محمدی کے قوانین، تمام زندگی کے مسائل کے حل کے اسلامی قانون اور بنیادی نظریئے غلط ہیں۔ تاقابل قبول ہے، صحیح طریقہ صرف وہی ہے جو انسانوں کا ایجاد کردہ ہے، !! غیروں کے منکران اسلام کے قانون صحیح ہیں ہمارے تعلیمی ادارے ارباب تدریس یہ تاثر دے رہے ہیں کہ تاریخ، فلسفہ، معاشیات، سیاسیات، اخلاقیات وہی صحیح ہے جو نظریات مغربیت سے ملحقہ ہیں، اس سے نہ صرف ہم بلکہ نسل در نسل ہم یہ تاثر دے رہے ہیں یوروپ کی غلامی ہی بر حق ہے بہ نسبت اسلامی تعلیمات کے !! ؎
ہمارے تاجر حضرات، صنعت کار دیندار ہوکر بھی اس بات کا یقین رکھتے ہیں اس کا اظہار کررہے ہیں کہ اسلام میں معاملات معاشرات کے حدود ناقابل فہم اور ناقابل عمل ہیں اور تجارت، کاروبار انہیں طرز اور طریقے پر ہوسکتا ہے جس طرح غیر اسلامی ماحول میں (غیر مسلموں) کے ساتھ ہم رہتے ہیں۔ ہمارے اکثر سیاسی رہنما (چند کو چھوڑکر) اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ ان کے پاس بھی قومیت اور وطنیت کے وہی گن گان، نعرے اور دستور ہے وہی مقصد لیڈری ہے تو مسائل کے حل کا وہی طریقہ ہے ڈھنگ ہے جو منکران اسلام اپناتے ہیں وہی مسلمان لیڈر اپنانا اگرچیکہ یہ اسلامی طریقہ رکھتا ہے۔ ان کی بھی زبان چلتی ہے تو اس کا مصرف صرف دنیائی معاملات کو مقدم رکھتا ہے، ان کے پاس ایسا کوئی دین نہیں جس میں احساس جوابدہی جو کچھ ہم کررہے ہیں اسے دکھایا جائے گا (روز محشر) اس کی ہم سے پوچھ ہوگی۔
(Concept of Answerability)
اس فکر کا ان کے اندر کوئی وجود بھی نہیں ہے، ہاں اتنا ضرور ہے کہ کہیں کہیں صالح افراد ہمارے پاس ہوتے ہیں لیکن اکثر کا خیال فکر، جھوٹ بولنا، خیانت کرنا، ظلم کرنا، دبدبے کے ذریعہ دھوکہ دینا، قول و قرار سے مکرجانا بداخلاقی، بے غیرتی، بے حیائی، سودے بازی، دنگا فساد، ڈرانا دھمکانا، کرنا یا کروانا یہ سب عام بات ہے جو جہاں غیر کرتے ہیں وہی مسلمان لیڈر بھی کرتے ہیں۔
وائے ناکامی احساس زیاں جاتا رہا
افسوس مسلمان منظم ضابطہ زندگی کے اصول رکھنے کے باوجود تقریباً متفق ہوکر اسلام کے خلاف عملی گواہی دے رہے ہیں۔ انگریز مصنف
Lawrence Brown
اپنی کتاب
Prospects of Islam
میں لکھتے ہیں، مسلمانوں نے عملی طور پر تو دیوانی فوجداری، ناقابل عمل قوانین کو تو اپنالیا اور شریعت محمدی (پرسنل لا) کو الماری اور جزدانوں کی زینت بنا دیا اور اجتماعی طور پر یہ گواہی دے رہے ہیں کہ دین اسلام کا کوئی طریقہ ہمیں پسند نہیں ہے ہم اس اسلامی قانون میں اپنی فلاح و نجات نہیں پاتے۔