روش کمار
آج کل مہاراشٹرا کے سابق ریاستی وزیر بابا صدیقی کے قتل اور اس میں لارنس بشنوئی ٹولی کے ملوث ہونے سے متعلق بہت کچھ کہا جارہا ہے لیکن ایک بات ضرور ہیکہ این سی پی ( اجیت پوار گروپ ) کے لیڈر بابا صدیقی کے قتل نے کئی ایک سوالات پیدا کئے ہیں ۔ بابا صدیقی باندرہ ( ایسٹ ) سے ریاستی اسمبلی میں 1999 تا 2014 تین مرتبہ کانگریس کے ٹکٹ پر منتخب ہوتے رہے ۔ ملک کی سب سے قدیم پارٹی سے زائداز 48 برسوں تک وابستگی کے بعد پتہ نہیں کیا مجبوری تھی کہ انہوں نے این سی پی ( اجیت پوار گروپ ) میں شمولیت اختیار کرلی ۔ بہرحال بابا صدیقی سابق ایم ایل اے ، سابق ریاستی وزیر اور ریاست کے ایک سینئر سیاستداں کو ان کی باندرہ میں گولی مار کر قتل کردیا جاتا ہے ۔ ہمارا سوال یہ ہیکہ قتل کے پیچھے کار فرما جس ٹولی کا نام لیا جارہا ہے اُسی کا ہاتھ ہے یا کہانی بنائی جارہی ہے تاکہ قتل کے بعد توجہ کہیں اور چلی جائے اور میڈیا میں بشنوئی گینگ کو لیکر سنسنی خیز کہانیاں بننے لگ جائیں اور یہی کہانی صحیح ہوسکتی ہے تو پھر مئی 2022 میں پنجابی کے مشہور و معروف گلوکار سدھو موسے والا کے قتل کے بعد بھی اس گینگ کا نام آیا ہے یہ گینگ کیسے باقی ہے ۔ جاریہ سال اپریل میں سلمان خان کے گھر کے باہر گولیاں چلی تھیں تب اس ٹولی کا نام آیا لیکن کچھ ہوا نہیں ، ایک سابق رکن اسمبلی کا قتل ہوا ہے اور گودی میڈیا کے چیانلوں پر لارنس بشنوئی کی کہانیاں چل رہی ہیں کیونکہ ایک گینگسٹر کو لیکر کتنے ہی کہانیاں گھڑی جاسکتی ہیں ۔ دھوم دھام کی موسیقی بیاگ گراؤنڈ میں لاکر آپ کی آنکھوں کو چکاچوند کیا جاسکتا ہے اور اس کے درمیان یہ سوال بھی غائب کردیا جائے گا کہ انکاونٹر والی حکومت ، بلڈوزر والی حکومت ایک گینگسٹر کو کنٹرول کیوں نہیں کر پائی ؟ آخر اس کا موقف اتنا مضبوط کیسے ہے کہ جیل میں رہتے ہوئے کسی کو بھی اُڑا دیتا ہے یا کسی قتل کے پیچھے اس کا نام آجاتا ہے ۔ ایک بے آواز شخص اور دو بچیوں کے ساتھ جنسی ہراسانی کے ملزم اکشے شنڈے کا انکاونٹر جب کئی سوالوں سے گھیرا تو مہاراشٹرا کے ڈپٹی چیف منسٹر دیویندر فڈنویس کے حامی انہیں سنگھم بتانے لگے ۔ ممبئی میں اس طرح کے پوسٹر لگادیئے گئے کہ فڈنویس کے یہاں فیصلہ اس طرح سے ہوتا ہے لیکن ان ہی کے اتحادی پارٹی کے لیڈر کا قتل ہوگیا ہے کیا ایسی کوئی کہانی نہیں کہ لارنس بشنوئی گجرات پولیس کی گرفت سے بھاگ رہا تھا انسپکٹر کی جیب سے ریوالور نکال لیا تھا ۔ ایک سپاہی کو زخمی کرچکا تھا اور پولیس نے اسے انکاونٹر میں ڈھیر کردیا دو ہفتہ پہلے سنگھم اور انکاونٹر راج کا چہرہ بتائے جارہے دیویندر فڈنویس کیا کوئی ایسی دھمکی دے رہے ہیں وارننگ دے رہے ہیں یا کسی کو دھمکا رہے ہیں ۔ اس معاملہ میں شیوسینا ( ادھو ٹھاکرے ) کے رکن راجیہ سبھا سنجے راوت کا کہنا ہے ’’ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ ممبئی میں پھر ایک بار گینگ وار ، انڈر ورلڈ کی طاقت بڑھ سکتی ہے ۔ جب سے یہ سرکار آئی ہے کیونکہ اس حکومت کے پیچھے بھی انڈر ورلڈ کی طاقت ہے اور انڈر ورلڈ گجرات سے چل رہا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ 5000 کروڑ کی منشیات گجرات میں ضبط ہوئی ہے کونسی بندرگاہ پر چیک کر لیجئے۔ ایک گینگسٹر گجرات کے سامبرمتی جیل میں ہے گجرات اے ٹی ایس کے قبضہ میں ہے اور وہ فرد مٹھی میں جو ایک اہم لیڈر بابا صدیقی کا قتل ہوتا ہے اس کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتا ہے ، بابا صدیقی کوئی عام آدمی نہیں تھے ایسے شخص کی پولیس حفاظت میں قتل ہوگیا اس کیلئے ذمہ دار کون ؟ اور ذمہ داری وہ لیتا ہے جو گجرات اے ٹی ایس کے قبضہ میں ہے۔ یہ تو اس قدر سنگین بات ہے کہ ریاستی وزیر داخلہ اور ملک کے وزیر داخلہ جن کا تعلق گجرات سے ہے ان کیلئے بھی یہ ایک چیلنج ہے ۔ اجیت پوار کو چاہئے کہ وہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کا استعفی مانگیں اس لئے کہ یہ جو بابا صدیقی ہے ان کی پارٹی کے لیڈر تھے ہمت ہے اجیت پوار میں ؟ دیویندر فڈنویس کو چھوڑ دیجئے وہ ابھی کچھ کام کے نہیں رہے ‘‘ ۔
گجرات کی جیل میں بند کوئی اتنا طاقتور ہو سکتا ہے اس کی ٹولی اس قدر پھیل چکی ہیکہ ساری ایجنسیاں کچھ نہیں کر پارہی ہیں ۔ یو پی میں مافیا کے نام پر جیل میں بند ملزمین کو دوسری ریاستوں سے یو پی لایا گیا ۔ گودی میڈیا کے تمام کیمرے لگاکر دن رات لگاتار چیانلوں پر دکھایا گیا ماحول بنایا گیا کہ یہ ہوتی ہے حکومت ، وہ سارے کیمرے اب کہاں ہے گودی میڈیا کے دور میں کیا سچ ہے اس کا پتہ لگانے کی کوئی مسابقت نہیں ہے ۔ کرائم رپورٹر ہی بہتر بتاسکتے ہیں کہ بابا صدیقی کے قتل کے پیچھے کی کہانی وہی ہے جو بتائی جارہی ہے یا کچھ اور ہے جو نہیں بتائی جارہی ہے ؟ کیا اس قتل کے پیچھے مہاراشٹرا انتخابات میں سنسنی پیدا کی جارہی ہے ؟ جیسے ہریانہ انتخابات کے وقت تروپتی کے لڈو کے تنازعہ نے سنسنی پیدا کردی تھی ۔ لوگ انتخابات چھوڑ کر اُسی کی چرچا میں لگ گئے ایک اور چیز کی کمی نظر آرہی ہے یہی واقعہ اگر مغربی بنگال میں ہوتا مافیا وہاں کی جیل میں ہوتا تو آپ دیکھتے گودی میڈیا ، آئی ٹی سیل اور مختلف آوازوں کا سسٹم کتنا متحد ہوجاتا ۔ ممبئی میں ایسی کوئی مانگ نہیں بس کہانی چلائی جارہی ہے تاکہ کہانی میں ہی ایک سابق ریاستی وزیر کی خبر کھوجائے ۔ بابا صدیقی باندرہ ( ویسٹ ) سے تین مرتبہ ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے ۔ مہاراشٹرا کے ریاستی وزیر رہ چکے بابا صدیقی کو گولی مار کر قتل کردیا جاتا ہے بابا صدیقی ہفتہ کو باندرہ ایسٹ کے رکن اسمبلی اور اپنے بیٹے ذیشان صدیقی کے دفتر سے رات سوا نو بجے نکل کر اپنی گاڑی کی طرف جارہے تھے جب تین ملزمین ہیںانہیں گھیرا اور 6 راؤنڈ گولیاں چلائیں حملہ کے بعد بابا صدیقی کو لیلاوتی ہاسپٹل لے جایا گیا لیکن وہاں انہیں بچایا نہیں جاسکا ۔ ہفتہ کی رات سنجے دت سے لیکر سلمان خان تک لیلاوتی ہاسپٹل پہنچے جہاں بابا صدیقی کی نعش رکھی گئی تھی ۔ بابا صدیقی پہلے کانگریس میں تھے اسی سال فبروری میں اجیت پوار کی این سی پی میں شامل ہوگئے ۔ ان کی موت پر اجیت پوار نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے لکھا کہ بابا صدیقی کی موت سے این سی پی کو گہرا صدمہ ہوا ہے میں نے اپنا برسوں پرانا دوست کھودیا ہے ہم سب اس حادثہ سے پریشان ہیں غمزدہ ہیں یہ صرف ایک سیاسی حادثہ نہیں ہے بلکہ ایک بیحد شخصی نقصان ہے جس نے ہم سب کو جھنجھوڑ دیا ہے میری سب سے درخواست ہے کہ اس بھیانک واقعہ کو سیاسی رنگ نہیں دیا جانا چاہئے یہ سیاسی فائدہ کیلئے دوسرے کے درد کا استعمال کرنے کا وقت نہیں ہے ابھی ہماری ساری توجہ اس بات پر ہونی چاہئے کہ انصاف کیسے ملے ؟ جب تک اس کے ذمہ دار لوگوں کا حساب نہیں ہوجاتا ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔ راہول گاندھی نے اپنے ٹوئیٹ میں لکھا ہے کہ بابا صدیقی کا قتل چونکا دینے والا اور صدمہ انگیز ہے ۔ میری دعائیں ان کے ارکان خاندان کے ساتھ ہیں یہ بھیانک واقعہ مہاراشٹرا میں قانون کی صورتحال کے پوری طرح تباہ ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ حکومت کو اس کی ذمہ داری لینی چاہئے اور انصاف ہونا چاہئے اگر اسی طرح کا قتل دوسری ریاست میں ہوا ہوتا تو کیا اجیت پوار کہتے کہ اسے سیاسی رنگ نہیں دیا جانا چاہئے اپنے قدیم دوست کے قتل کو لیکر وہ اس طرح کی بات کیوں کررہے ہیں ۔ ہفتہ سے لیکر آج تک تھیوری ہی چل رہی ہے کوئی کہہ رہا ہیکہ بابا صدیقی سلمان خان کے قریبی تھے اس لئے گجرات کی جیل میں بند لارنس بشنوئی نے ان کا قتل کردیا ۔ کوئی ممبئی میں چل رہے سلم ری ڈیولپمنٹ پراجکٹ کو لیکر آپسی جھگڑے کی کہانی بتارہا ہے یہ سارے پراجکٹ کے تحت جھگی جھونپڑیوں کو توڑ کر اونچی عمارتیں تعمیر کی جانے والی ہیں جس کے کچھ فلیٹس جھگی جھونپڑی والوں کو ملیں گے اور باقی فروخت کردیئے جائیں گے ۔ ممبئی میں رئیل اسٹیٹ کو لیکر گیانگ وار پرانی بات ہوچکی ہے یہاں کا کاروبار اب اتنا وسیع تو ہو ہی گیا ہے کہ سب کو اپنا حصہ لینا پتہ ہے اور اپنا دائرہ بھی ، زیادہ تر ایک ہی گروپ کے لوگ بھی ہیں ۔ اب پولیس کی تحقیقات سے ہی پتہ چلے گا کہ اس تھیوری میں کتنا دم تھا یا آگے چل کر 20 ہزار یا 50 ہزار کیلئے قتل کرنے والوں کی غریبی پر سارا قصور ڈال کر سب ہی اپنے اپنے کام میں مصروف ہوجائیں گے اس واقعہ کو بھول جائیں گے ۔ گودی میڈیا کے صفحات پر 90 کے دہے کے دوران ممبئی میں ہونے والی گینگ وار کی کہانی شائع کی جارہی ہے تاکہ صفحات بھر جائیں اور لگے کہ سابق رکن اسمبلی قتل کا سچ جاننے کیلئے یہ میڈیا مصروف ہے ۔ اس طرح سے قتل کی کہانی میں سنسنی کسی طرح واپس ہوتی رہی بس کس کی جوابدہی ہے یہ سوال بار بار لوٹ کر نہ آئے ۔ کیا گجرات کے سامبرمتی جیل میں قتل ، منشیات اور اسلحہ کی اسمگلنگ اور رقم کی جبری وصولی جیسے معاملوں میں سزا کاٹ رہے لارنس بشنوئی نے اس قتل کی سازش رچی کیا واقعی وہ اتنا طاقتور ہے کہ جیل میں رہنے کے باوجود وہ سلمان خان کے گھر کے باہر گولیاں چلانے کا انتظام کرتا ہے ، بابا صدیقی کے قتل کو انجام دے دیتا ہے ۔ ممبئی پولیس نے تو اتنا ہی بتایا کہ دو ملزمین فرار اور دو گرفتار ہوچکے ہیں ۔ پولیس کے مطابق ہریانہ کے رہنے والے 23 سال کے گرمیل سنگھ ، یو پی کے رہنے والے 21 سال کے دھرم راج کیشپ اور شیو کمار گوتم ان تینوں نے بابا صدیقی پر حملہ کیا ۔ 6 گولیاں چلانے والا شیو کمار گوتم فرار ہے یہ دونوں ملزمین ممبئی کے کرلا علاقہ میں کرایہ کے مکان میں رہ رہے تھے اور ہر روز باندرہ آکر بابا صدیقی اور ان کے بیٹے ذیشان صدیقی کے گھر اور دفتر کی ریکی کیا کرتے تھے ۔ کیا بابا صدیقی کے سلمان خان کے ساتھ اچھے تعلقات کی وجہ انہیں قتل کیا گیا ؟ اس تھیوری کو لیکر سوشیل میڈیا پر ایک پوسٹ بھی وائرل ہوا جس کی جانچ ممبئی پولیس کررہی ہے ۔ ابھی تک جو گرفتاریاں سامنے آئی ہیں وہ ہندوستان کے نوجوانوں کی کہانی بھی الگ سے کہنا چاہتی ہیں۔ پولیس ذرائع کے حوالے سے میڈیا میں یہ کہانی چل رہی ہے کہ 4 لوگ قتل میں ملوث ہیں انہیں 50-50 ہزار روپئے دیئے گئے ۔ جن ملزمین نے قتل کی یہ واردات انجام دی وہ پنجاب کی جیلوں میں ایک ساتھ رہ چکے ہیں اور تبھی ایک دوسرے کو جانتے ہیں یہ کہانی عتیق احمد کے قتل سے ملتی جلتی لگتی ہے جب پولیس کی موجودگی میں ان پر گولی چلائی جاتی ہے کچھ دنوں بعد کسی لوکیش تیواری کو سامنے لایا جاتا ہے اس کے خاندان نے بھی کہا کہ اس سے کچھ لینا دینا نہیں ۔ بابا صدیقی اور عتیق احمد کے قتل میں ملوث یو پی اور ہریانہ سے جو نوجوان پکڑے گئے ہیں ان سب ہی کی کہانی ایک دوسرے سے کتنی ملتی چلتی لگی ہے کیا ایسی کہانیاں بنائی جاتی ہیں ؟۔