تین طلاق قانون دستوری جواز کو چیلنج کرنیکا فیصلہ ۔ یکساں سیول کوڈ کیخلاف آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا پیشگی انتباہ ۔ ایگزیکٹیو کمیٹی میٹنگ کا انعقاد
لکھنو ، 12 اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام) آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ہفتہ کو قوی امید کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ کا 2.77 ایکڑ متنازعہ رام جنم بھومی۔ بابری مسجد اراضی کے بارے میں فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوگا، اور کہا کہ فیصلہ قانون کی حکمرانی اور دستور کے بنیادی اقدار کی مطابقت میں رہے گا۔ اپنے اجلاسِ عاملہ کے بعد بورڈ نے قانون مخالف تین طلاق کے دستوری جواز کو چیلنج کرنے کا فیصلہ بھی کیا اور یکساں سیول کوڈ یا یونیفارم سیول کوڈ (یو سی سی) کو مسلط کرنے کے کوئی بھی ’’قانون سازی یا عدالتی‘‘ اقدام کے خلاف انتباہ دیتے ہوئے یو سی سی کے ’’بنیادی نظریہ‘‘ کو اس ملک کے کثرت میں وحدت والے جذبہ کیلئے ’’خطرہ‘‘ قرار دیا۔ مسلم لا بورڈ نے اپنے سربراہ مولانا رابع حسن ندوی کی صدارت میں منعقدہ میٹنگ کے بعد ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بابری مسجد کے مقدمہ کا نہ صرف ہماری قوم بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی مشاہدہ کیا جارہا ہے۔ یہ ہمارے دستور میں مصرحہ سکیولرازم کے بنیادی اقدار کیلئے آزمائشی مقدمہ ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ فاضل عدالت کا قطعی فیصلہ قانون کی حکمرانی اور دستور کے بنیادی اقدار کی مطابقت میں رہے گا۔ اے آئی ایم پی ایل بی کے ٹھوس تاثرات سپریم کورٹ کی 18 اکٹوبر کی اُس مہلت سے چند روز قبل سامنے آئے ہیں جو پیچیدہ ایودھیا مسئلہ کے بارے میں ملکیتی مقدمہ پر عدالت میں سماعت مکمل کرلینے سے متعلق ہے۔ سپریم کورٹ نے 18 ستمبر کو ہی 18 اکٹوبر کی قطعی مہلت مقرر کردی تھی کہ توسیعی اراضی ملکیتی مقدمہ میں دلائل کی سماعت کو تب تک مکمل کرلیا جائے۔ دلائل کی سماعت کیلئے اس مہلت کی اہمیت ہے کیونکہ چیف جسٹس رنجن گوگوئی جو اس کیس کی سماعت کرنے والی پانچ رکنی دستوری بنچ کی قیادت کررہے ہیں،
وہ 17 نومبر کو عہدہ سے سبکدوش ہونے والے ہیں۔ آج کی مسلم پرسنل لا بورڈ میٹنگ میں بورڈ کے متعدد سینئر عہدیداران شریک ہوئے، جن میں نائب صدر فخرالدین اشرف کچھوچھوی، معتمد عمومی مولانا ولی رحمانی، سینئر ارکان ظفریاب جیلانی اور خالد رشید فرنگی محلی اور سربراہ جمعیۃ العلماء ہند مولانا ارشد مدنی شامل ہیں۔ بورڈ نے پیچیدہ مسئلہ کی عدالت سے باہر یکسوئی کیلئے قبل ازیں منعقدہ عمل ثالثی پر عدم اطمینان کا اظہار بھی کیا، اور اس پر کوئی مصالحت کو خارج از امکان قرار دیا۔ بورڈ نے بیان میں کہا کہ مسلم برادری کے بنیادی موقف کے اعادے کا عہد کیا گیا کہ مسجد کیلئے وقف اراضی کا درجہ کسی بھی انداز میں بدلاؤ نہیں لایا جاسکتا، اسے تبدیل یا منتقل نہیں جاسکتا ہے۔ شریعت کا قانون اس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ لہٰذا، کوئی مسلم اس طرح کی وقف اراضی سے دستبردار نہیں ہوسکتا یا اس کو منتقل نہیں کرسکتا ہے۔ مسلمانوں کا یہ بیان تاریخی حقائق اور ثبوت پر مبنی ہے کہ بابری مسجد کوئی مندر یا کوئی دیگر عبادت گاہ کو منہدم کئے بغیر تعمیر کی گئی تھی۔ بورڈ نے اس مسئلہ پر مصالحت کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے کہا: ’’بابری مسجد سے متعلق مسئلہ کی ثالثی کیلئے کئی تجاویز پیش کئے گئے اور اے آئی ایم پی ایل بی نے اس ضمن میں بھرپور حصہ لیا، ایسی کامل امید کے ساتھ کہ انصاف پر مبنی کوئی حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کئی دور کی کوششوں کے بعد اب واضح ہے کہ ثالثی؍ صلح کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا یہ ظاہر ہے کہ چونکہ قانونی کارروائی قطعی مرحلے میں ہے، اب کوئی ثالثی؍ مصالحت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ بورڈ نے صلح کے امکان کو دو یوم میں رد کردیا جبکہ مسلم دانشوروں کے ایک گروپ نے 10 اکٹوبر کو پیچیدہ ایودھیا مسئلہ کی عدالت سے باہر یکسوئی کی تجویز پیش کرتے ہوئے زور دیا تھا کہ اس سے ملک میں امن قائم رکھنے میں مدد ملے گی بشرطیکہ مسلمان متنازعہ اراضی مرکزی حکومت کو ’’خیرسگالی اقدام‘‘ کے طور پر حوالے کردیں۔ نوتشکیل شدہ ’’انڈین مسلمس فار پیس‘‘ کے کنوینر کلام خان نے ایک صحافتی بیان میں کہا تھا کہ جمعرات کو منعقدہ فورم کی میٹنگ نے ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے رام جنم بھومی۔ بابری مسجد اراضی تنازعہ کی عدالت سے باہر یکسوئی کی حمایت کی ہے۔ بورڈ نے ایودھیا اراضی تنازعہ پر فاضل عدالت میں قانونی دلائل کی پیشکشی پر بھی اطمینان ظاہر کیا۔ ایک بورڈ ممبر نے شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ میٹنگ کے دوران کمیٹی ممبرس نے عدالت میں مسلم فریق کی نمائندگی کرنے والے سینئر کونسل راجیو دھون کے پیش کردہ مضبوط قانونی نکات پر اطمینان کا اظہار کیا۔ مسلم فریق نے ٹھوس دلائل پیش کئے اور ہم پُرامید ہیں کہ فاضل عدالت کا فیصلہ ہمارے حق میں ہوگا۔