بابری مسجد تنازعہ سے زیادہ پیچیدہ ہے فیس ادائیگی کا معاملہ

   

ڈاکٹر دھون نے جمعیت سے ان کی فیس ادائیگی کی رسیدیں ان تک پہنچانے کو کہا تھا

لکھنؤ۔بابری مسجد۔رام مندرمتنازعہ اراضی ملکیت معاملے میں مسجد کے اہم فریق جمعیت علماء ہندکے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون کے نام پر اس کیس میں ایڈوکیٹ آن ریکاڑ اعجاز مقبول کے ذریعہ مبینہ فیس لینے کے معاملے میں جمعیت کے موقف میں کافی تردد ہے جس نے معاملے کو مزید پیچیدہ کردیاہے ۔سپریم کورٹ کے معروف وکیل ڈاکٹر راجیو دھون کے ذریعہ بابری مسجد کا کیس مفت میں لڑنے کی بات سرزدعام ہے ۔لیکن سپریم کورٹ کے وکیل اور بابری مسجد معاملے میں کبھی جمعیت کے وکیل رہے ارشاد حنیف نے الزام لگایا ہے کہ اعجاز مقبول نے راجیودھون کے نام پر جمعیت سے خطیر رقم لی ہے ۔ ڈاکٹر دھون کے فیس کے نام پر جمعیت سے رقم جاری کی گئی لیکن وہ راجیو تک نہیں پہنچی۔ملحوظ رہے کہ بابری معاملے میں اعجاز مقبول ایڈوکیٹ آن ریکارڈ تھے اور وہی راجیو دھون کi معاونت کررہے تھے ۔اور جمعیت نے انہیں کی توسط سے ڈاکٹر دھون کو اس کیس سے وابستہ کیا تھا۔مسٹر حنیف نے اس ضمن میں حلفیہ بیان دینے کی صراحت کے ساتھ دعوی کیا کہ انہوں ڈاکٹر دھون سے جمعیت سے ان کی فیس جاری ہونے کا ذکر کیا تھا تو ڈاکٹر دھون نے کافی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے برجستہ کہا تھا کہ ‘یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟’۔مسٹر حنیف کے بقول انہوں نے ڈاکٹر دھون کی آفس میں ہی اس ضمن میں راجیودھون اور جمعیت علماء کے صدر ارشدمدنی سے کال کانفرنسنگ کرائی تھی جس کے بعد ڈاکٹر دھون نے انہیں جمعیت سے ان کی فیس ادائیگی کی رسیدیں ان تک پہنچانے کو کہا تھا۔وہ کہتے ہیں لیکن بعد میں جب ہم رسدیں لانے جمعیت پہنچے تو انہوں نے اس ضمن میں ڈاکٹر دھون سے بات کرلینے کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں درکنار کردیا۔یواین آئی سے ٹیلوفونک گفتگو میں ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے اس معاملے میں عدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ پیشہ وارانہ مخاصمت کا پیش خیمہ ہے ۔اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ڈاکٹر دھون نے بالکل مفت میں شروع تا آخر تک کیس لڑا ہے ۔

ڈاکٹردھون کی فیس کے نام پر جمعیت سے خطیر رقم لینے کے الزام کے پاداش میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرنے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہم انہیں اس لائق بھی نہیں سمجھتے کہ ان باتوں پر دھیان دیں۔اس ضمن میں ہم نے جمعت علماء کے کئی ذمہ داران سے رابطہ کر کے ڈاکٹر دھون کو جمعیت کی جانب سے فیس کی ادائیگی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کوئی واضح موقف اختیار کرنے ،معاملے کی تصدیق یا تردید کے بجائے ‘اب ہم اس معاملے میں دوبارہ نہیں پڑنا چاہتے ‘جو ہوگیا ہوگیا اب اس پر کیا بات کرنا’کہہ بات کو ڈال دیا۔اس ضمن میں مولانا ارشد مدنی نے نمائندے کے سوال کا براہ راست جواب دینے کے بجائے پورے معاملے میں جمعیت کے ممبئی یونٹ سے رابطہ کرنے کا حوالہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام عدالتی کاروائیاں ممبئی یونٹ ہی دیکھتی ہے ۔جمعت علماء کے سکریٹری مولاناگلزاراحمد اعظمی و جمعیت علماء ہند کے میڈیا سکریٹری مولانا فضل الرحمان سے بھی ہم نے رابطہ کیا لیکن دونوں نے کچھ بھی کہنے سے صاف منع کردیا ۔مولانا فضل الرحمان نے ضرورت پڑنے پر جمعیت کی جانب سے میڈیا کے لئے اس ضمن میں پریس نوٹ جاری کرنے اور مولانا گلزار نے بات کو طول نہ دینے کا حوالہ دیا۔