بابری مسجد خالی جگہ نہیں بنائی گئی تھی، اب وہاں رام مندر بنائیں: عدالت

,

   

مسلمانوں کیلئے مقدس شہر ایودھیا میں ہی مسجد کیلئے علحدہ پانچ ایکر اراضی فراہم کریں ۔ بابری مسجد کے انہدام کی غلطی کا مداوا کرنے کی بھی حکومت کو ہدایت ، سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ

نئی دہلی ۔ 9 نومبر (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے زائد از ایک صدی سے جاری رام جنم بھومی ۔ بابری مسجد تنازعہ پر ہفتہ کو متفقہ طور پر تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے ایودھیا کے متنازعہ مقام پر ایک ٹرسٹ کے ذریعہ رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کردی اور رولنگ میں مرکز کو ہدایت کی کہ ہندوؤں کے اس مقدس شہر میں مسجد کی تعمیر کیلئے مسلمانوں کو متبادل کے طور پر پانچ ایکر اراضی کا پلاٹ فراہم کیا جائے ۔ ایک ایسے حساس و پیچیدہ مسئلہ پر ،جس نے ملک کی مذہبی خطوط پر شیرازہ بندی کے علاوہ ہندوستانی سماج کے سیکولر تانے بانے کو جھنجوڑرکھا تھا ، چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی کی زیرقیادت عدالت عظمیٰ کی پانچ رکنی دستوری بنچ نے اپنے متفقہ فیصلے میں کہا کہ اس مقام پر لارڈ رام کی پیدائش کے بارے میں ہندوؤں کے ایقان و اعتقاد پر کوئی تنازعہ نہیں ہے اور یہ کہ وہ (لارڈ رام) اس اراضی کے علامتی مالک ہیں ۔ سپریم کورٹ رولنگ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ بھی واضح ہے کہ 16 ویں صدی میں تعمیر شدہ تین گنبدوں کے اس ڈھانچہ کو ان ہندو کارسیوکوں نے منہدم کردیا تھا جو وہاں رام مندر بنانا چاہتے تھے، ان کا یہ اقدام بھی غلط تھا ۔ ’’چنانچہ اس کا مداوا کیا جانا چاہئے۔‘‘ ہندو سیاستدانوں اور گروپوں نے اس فیصلے کا وسیع تر پیمانے پر خیرمقدم کیا ہے لیکن مسلم قیادت نے کہا کہ وہ اس فیصلے کو اگرچہ قبول کرتے ہیں لیکن اس میں خامیاں ضرور موجود ہیں ۔ اس کے باوجود انہوں (مسلم قائدین) نے امن و سکون برقرار رکھنے کی اپیل کی ۔ ملک کے بالعموم تمام سیاسی قائدین نے اس تاثر کا اظہار کیا کہ اب آگے بڑھنے کا وقت ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ کوئی بھی خواہ رام کے بھکت ہوں کہ رحیم کے پیرو ہوں انہیں ہندوستان پر اپنے اعتقاد کو مضبوط و مستحکم بنانا چاہئے۔ بتایا جاتا ہے کہ پہلے مغل شہنشاہ بابر کی ایماء پر ایودھیا میں تین گنبدوں پر مشتمل یہ مسجد بنائی گئی تھی اور صدیوں سے ہندو اس بات پر اصرار کررہے تھے کہ قابض مسلم افواج نے وہاں موجود ایک رام مندر کو زمین دوز کرتے ہوئے اس کے ملبہ پر مسجد تعمیر کی تھی ۔ لیکن 1885 ء میں یہ مسئلہ اُس وقت ایک قانونی تنازعہ میں تبدیل ہوگیا جب ایک مہنت نے عدالت سے رجوع ہوتے ہوئے مسجد کے باہر شامیانہ اور چھپر نصب کرنے کی اجازت طلب کیا تھا ۔

لیکن عدالت نے مہنت کی درخواست کو مسترد کردیا تھا ۔ 1949 ء میں نامعلوم اشرار نے بابری مسجد میں لارڈ رام کی مورتی نصب کردی تھی۔ بالآخر 6 ڈسمبر 1992 ء کو کارسیوکوں کے بڑے ہجوم نے اس ڈھانچہ کو زمین دوز کردیا تھا۔ اس مسجد کے انہدام کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ پھوٹ پڑا تھا ۔ بالخصوص شمالی ہند اور ممبئی میں کئی ماہ تک فسادات جاری رہے ۔ بابری مسجد کے انہدام اور فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں کے جان و مال کے بھاری نقصانات پر برہم انتہاپسندوں کی طرف سے 12مارچ 1993 ء کو ممبئی میں سلسلہ وار دھماکے کئے گئے جن میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوگئے تھے ۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی قیادت میں دستوری بنچ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا: ’’دستوراس بات کو یقینی بنائے کہ جو غلطی سرزد ہوئی تھی اس کی تلافی کی جائے ۔ اس وقت تک انصاف نہیں ہوسکتا جب تک عدالت مسلمانوں کے حق کو نظر انداز کردے ۔ یہ مسلمان ان ذرائع سے اس مسجد کے ڈھانچہ سے محروم ہوئے ہیں جن (ذرائع) کو قانون کی حکمرانی کے عہد کے پابند کسی سیکولر ملک میں استعمال نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ اس غلطی کا مداوا کرنے کیلئے عدالت کی طرف سے حکومت سے کہا جاتا ہے کہ اترپردیش کے اس مقدس مقام ایودھیا میں کسی مرکزی مقام پر پانچ ایکر اراضی پر مشتمل پلاٹ فراہم کرے تاکہ وہاں ایک نئی مسجد تعمیر کی جاسکے ۔ متنازعہ 2.77 ایکر اراضی مرکزی حکومت کے نمائندہ کے پاس ہی رہے گی جو اندرون تین ماہ بنائے جانے والے ایک سرکاری ٹرسٹ کے حوالے کرے گا ۔ اس ٹرسٹ کو مندر کی تعمیر کا کام سونپا جائے گا ۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کو کسی کے ایقان و اعتقاد سے کوئی سروکار نہیں ہے بجائے اس کے اس کو تین فریقوں سنی مسلم وقف بورڈ ، نرموہی اکھاڑہ اور رام للا وراجمان کے طور پر نامزد علامتی طور پر لارڈ رام کے درمیان اراضی کی ملکیت کے مقدمہ کے طور پر دیکھا گیا ۔ عدالت عظمیٰ کی تاریخ میں یہ دوسرا طویل ترین مقدمہ رہا جس کی لگاتار 40 دن تک سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کردیا گیا تھا۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ یہ غیر منقولہ جائیداد کے بارے میں ایک تنازعہ ہے جس پر کسی ایقان و اعتقاد کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ ثبوت کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی 17 نومبر کو وظیفہ حسن خدمات پر سبکدوش ہورہے ہیں ۔ جس سے قبل ان کے زیرقیادت دستوری بنچ نے 1045 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ دیا ۔ بنچ میں جسٹس ایس اے بوبڈے ، جسٹس ڈی وائی چندرا چوڑ ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبدالنذیر بھی شامل ہیں۔ بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی مقدمہ کے قدیم ترین فریق ہاشم انصاری کے فرزند اقبال انصاری نے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس فیصلے سے مطمئن ہیں اور مزید کوئی اپیل نہیں کریں گے ۔ اس عدالتی فیصلہ کے اعلان سے قبل ملک بھر کے تمام حساس علاقوں میں سخت ترین سکیورٹی انتظامات کئے گئے۔