بابری مسجد سپریم کورٹ کا فیصلہ مسلمانوں میں تذبذب کا باعث

,

   

آج جمعیتہ علماء ہند کا اجلاس ، 17 نومبر کو مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاس میں دستوری حق کا فیصلہ
محمد مبشرالدین خرم
حیدرآباد۔13نومبر۔ بابری مسجد پر سپریم کورٹ کا فیصلہ مسلمانوں میں تذبذب کا سبب بنا ہوا ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلہ پر ردعمل کو مایوس کن تصور کیا جانے لگا ہے ۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ میں موجود کئی سرکردہ اراکین اور ذمہ داران قومی سطح پر مسلمانوں کے ردعمل پر حیرت و استعجاب کا اظہار کرنے لگے ہیں اور ملی تنظیموں کی جانب سے ردعمل کے معاملہ میں اختیار کردہ احتیاط کو کمزوری پر محمول کیا جانے لگا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے فوری بعد ردعمل کے اظہار میں کی جانے والی احتیاط اور فیصلہ سے قبل کی جانے والی اپیلوں کا اب ان گوشوں کی جانب سے جائزہ لیا جانے لگا ہے جو تحریکی و تنظیمی فکر کے حامل ہیں۔ بابری مسجد کے فیصلہ کو قطعی ماننے سے انکار کرنے والوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہونے لگا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اب بابری مسجد معاملہ میں درخواست نظر ثانی داخل کی جانی چاہئے کیونکہ ان حالات میں اختیار کیا جانے والا موقف ہندستان میں مسلمانوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والا ثابت ہوگا۔اس اہم ترین مقدمہ کو میلاد النبی ﷺ سے عین ایک دن قبل فیصلہ پر امت مسلمہ میں مایوسی اور بے چینی کی کیفیت پیدا ہوئی تھی اور 12 ربیع الاول کے بعد سے ہی سوشل میڈیا کے علاوہ دیگر ذرائع ابلاغ میں کھل کر اس بات پر اظہار خیال کیا جانے لگا ہے کہ اگر اس سنگین مسئلہ پر اس طرح کی بے حسی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں مستقبل میں حالات مزید سنگین ہونے کا خدشہ ہے۔بابری مسجد مقدمہ میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد مسلمانوں میں پیدا شدہ صورتحال اور ان میں پائی جانے والی مایوسی کو دور کرنے میں ایک مرتبہ پھر دیگر ابنائے وطن کی جانب سے اٹھائی جانے والی آواز نے ان کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔ جسٹس اشوک کمار گنگولی کے علاوہ دیگر کئی اہم شخصیتوں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر اظہار تاسف کرنے کے ساتھ ساتھ اس فیصلہ کو عقیدہ کی فتح قرار دیتے ہوئے حوصلہ شکنی کا شکار مسلمانوں میں نیا حوصلہ پیدا کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں اب مسلمانوں کی جانب سے بھی فیصلہ پر تبصرہ کیاجانے لگا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ دار نے بتایا کہ اے آئی ایم پی ایل بی کو نہ اس طرح کی فیصلہ کی توقع تھی اور نہ ہی فیصلہ پر اس طرح کے مایوس کن ردعمل کا تصور تھا

لیکن اس کے باوجود بورڈ کو اس بات کا یقین تھا کہ ملی تنظیموں کی جانب سے کوئی دستوری دائرہ میں کوئی رد عمل ظاہر کیا جائے گا۔ باوثوق ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق 14 نومبر کو ہونے والے جمعیۃ علمائے ہند (ارشد مدنی ) گروپ کے اجلاس کے بعد 17 نومبر بروز اتوار منعقد ہونے والے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈکے اجلاس میں دستور کے دائرہ میں دستوری حق کے استعمال کے متعلق فیصلہ کیا جائے گا اور اس اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر درخواست نظر ثانی کے ادخال کے سلسلہ میں بھی فیصلہ کو قطعیت دی جائے گی ۔سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد برسراقتدار طبقہ کی جانب سے جس طرح کا ردعمل ظاہر کیا گیا اور یکساں سیول کوڈ کے علاوہ این آر سی اور شہریت بل میں ترمیم کے سلسلہ میں اظہار خیال کیا گیا وہ نہ صرف ہندستانی مسلمانوں کے لئے بلکہ ہندستان میں موجود ملی تنظیموں اور اداروں کے علاوہ خود آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے لئے باعث فکر بن چکا ہے اور اب وہ اس بات پر غور کرنے لگے ہیں کہ ملک کے ارباب اقتدار نے دوسری معیاد میں کامیابی حاصل کرنے کے ساتھ ہی طلاق ثلاثہ اور کشمیر کے متعلق جو موقف اختیار کیا اس کے بعد رام مندر کے وعدہ کو پورا کرنے میں پیشرفت حاصل کی اور اب جو امور باقی رہ گئے ہیں ان پر بھی کھل کر رائے ظاہر کی جانے لگی ہے۔ہندستانی مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ہر فیصلہ کا احترام کیا ہے اور اب پرسنل لاء بورڈ میں موجود حمیت ملی رکھنے والے ذمہ داروں کا یہ احساس ہے کہ پرسنل لاء بورڈ اب مسلمانوں کو مزید مایوسی کا شکار نہ بنائے۔