بابری مسجد مقدمہ کا فیصلہ، 1992 انہدام کے ملزمین کی برأت اور 1991 ایکٹ کے باوجود مساجد کے سروے

   

جسٹس نریمن کا اظہار تشویش

نئی دہلی : سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس روہنٹن نریمن نے بابری مسجد مقدمہ میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر سخت نکتہ چینی کی اور موجودہ حالات میں عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق قانون کے باوجود نچلی عدالتوں کے فیصلوں پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا۔ دی وائر کی رپورٹ کے مطابق جسٹس اے ایم احمدی فاونڈیشن کے افتتاحی لیکچر میں انہوں نے 1991 کے عبادت گاہوں کے ایکٹ کیلئے بڑھتے ہوئے قانونی چیلنجوں پر سخت تنقید کی اور متنبہ کیا کہ یہ مقدمے، جو اکثر مساجد اور درگاہوں کو نشانہ بناتے ہیں، ہندوستان کی سیکولر بنیاد کو ختم کر رہے ہیں‘۔سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج نے کہا کہ ’بابری مسجد تنازعہ سے متعلق سپریم کورٹ نے برسوں کے دوران جو فیصلے سنائے اس میں سیکولرازم کے اصول کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا، خاص طور پر 2019 کا فیصلہ جس میں اس مسئلے پر حتمی حکم دیتے ہوئے مسجد کے انہدام کی جگہ پر مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ انہوں نے کہاکہ 1992 ء انہدام کے ملزمین کی برأت کا عدالتی فیصلہ بھی تشویشناک ہے۔’’سیکولرازم اور ہندوستانی آئین‘‘ کے موضوع پر جسٹس نریمن نے 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کے انہدام کے بعد حکومت ہند کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کو یاد کیا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے مرکز نے ایک لبرہان کمیشن کا تقرر کیا، جو یقیناً 17 سال تک سوتا رہا اور پھر 2009 میں ایک رپورٹ پیش کی۔ دوسرا، ایودھیا ایکوزیشن آف ایریاز ایکٹ تھا۔ انہوں نے بابری مسجد مقدمہ کے دوران کئے گئے سروے کو شرارت قرار دیا جس میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ مسجد کے نیچے کہیں کوئی مندر تو نہیں تھا۔ 2019 کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے، جسٹس نریمن نے مسجد کے انہدام کو غیر قانونی قرار دینے کے باوجود رام مندر کے لیے متنازعہ زمین دینے کے لیے عدالت کی طرف سے دیے گئے استدلال پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کی سازش کے الزام میں بی جے پی کے سیاسی لیڈروں کو سپریم کورٹ کی مداخلت کے باوجود ٹرائل کورٹ نے بری کر دیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح انہوں نے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے اس مقدمے کی دوبارہ سماعت شروع کرنے کے احکامات جاری کیے جو تقریباً 25 سال سے غیر فعال ہے۔
خصوصی سی بی آئی جج سریندر یادو، جنہوں نے مقدمہ چلایا اور بالآخر تمام ملزمان کو بری کر دیا اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد اتر پردیش میں ڈپٹی لوک آیوکت کے طور پر ملازمت حاصل کرلی‘۔ جسٹس نریمن نے اس پر افسوس کا اظہار کیا۔واضح رہے کہ لکھنؤ کی ایک خصوصی عدالت نے ستمبر 2020 میں سابق نائب وزیر اعظم ایل کے اڈوانی، اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ، بی جے پی لیڈر مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور کئی دیگر کو بابری مسجد انہدام کیس میں بری کر دیا تھا۔جسٹس نریمن نے کہا کہ اس طرح کے کیسز سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خطرہ ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ یہ معاملے ‘‘ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور بدامنی کا باعث بن سکتے ہیں۔’’ نریمن نے عبادت گاہوں کے تحفظ کے ایکٹ کی واضح شرط پر زور دیا گیا کہ 15 اگست 1947 تک تمام عبادت گاہوں کے مذہبی کردار کو منجمد کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے استدلال کیا کہ اس حیثیت پر نظر ثانی کی کسی بھی قانونی کوشش کو مسترد کر دیا جانا چاہیے۔جسٹس نریمن نے اپنے خطاب کو جسٹس چنپا ریڈی کا حوالہ دیتے ہوئے ختم کیا، جس میں کہا گیا کہ ‘‘ہماری روایت رواداری کا درس دیتی ہے۔ ہمارا فلسفہ رواداری کا درس دیتا ہے۔ ہمارا آئین رواداری پر عمل کرتا ہے۔ آئیے اسے کمزور نہ کریں۔