کیا بابری مسجد کی جگہ پر کوئی مندر تھا ؟
اب اِس نکتہ پر غور کیجئے کہ جس جگہ بابری مسجد کی عمارت تھی ، کیا اس جگہ پہلے مندر تھا ؟ اس سلسلہ میں کوئی تبصرہ کئے بغیر تاریخی شواہد اور ماہرین کی آراء پیش کی جاتی ہیں ، جن میں زیادہ تر غیر مسلم دانشوران ہیں :
۰ سرولیم ہنٹر نے ۱۸۸۱ء کے امپریل گزٹ میں لکھا ہے کہ ایودھیا کی کل ۵۱۸ ، ۷ کی آبادی میں ۴۶۰ ، ۴ ہندو ۵۱۹ ، ۲ مسلمان ہیں ، ہندوؤں کے ۹۶ مندر ہیں ، جب کہ ۳۶ مسجدیں ہیں ، کوشل خاندان کے خاتمہ کے بعد یہاں بدھوں کا تسلط بھی قائم ہوا تھا اور یہ بدھ مت کا بھی ایک بڑا مرکز ’’بدھ نگری ‘‘رہا ہے ، ایک روایت کے مطابق گوتم بدھ نے بھی ۹؍ سال یا۱۹؍ سال یہاں گزارے تھے ، ایک زمانہ میں یہاں بدھ مت کے ۲۰ ؍ ویہار بھی موجود تھے ، جس میں ۳۰۰۰ بھکشو رہا کرتے تھے ، پانچویں صدی میں چینی سیاح فاہیان اور ساتویں صدی میں ہوین سانگ نے ایک بدھ شہر کی حیثیت سے اس کا دورہ کیا تھا ، وہاں کے بودھ آبادی اور پرارتھنا استھلوں کا تذکرہ کیا ہے ، یہ جین مت کے ۵ تیر تھنکر یا پیشواوؤں کا بھی مسکن مانا جاتا ہے اور ان کے منادر بھی یہاں تھے ، اجودھیا میں رام بھکتی سے دو سو سال قبل صوفی ازم بھی پہنچ چکا تھا ؛ کیوںکہ یہ مانا جاتا ہے کہ رام بھکتی کا ہندو عوام میں پھیلاؤ اکبر کے ہم عصر تلسی داس کے رام چرت مانس کے ذریعہ ہی ہوا ، تلسی داس اور بالمیکی کی ایودھیادیو مالائی نگری اورسریو ندی ایک دیو مالائی ندی رہی ہے ، اس بنیاد پر ہندو ایودھیا کو خاص طورپر پوتر (پاک زمین ) مانتے ہیں ، یہ ان کے لئے دھار مک پرمپرا کا معاملہ ہے ، ان کی آستھا ( عقیدہ ) کے مطابق رام چندر جی کی پیدائش ایودھیا میں ہوئی تھی ، جہاں انھوں نے گیارہ ہزار برس تک حکومت کی اور مرنے پر یہیں انھیں نذرِآتش کیا گیا ۔
۰ ۱۸۵۴ء سے قبل تک کسی بھی ہندوستانی یا غیر ملکی سیاح ، مشاہد یا مؤرخ نے ایودھیا میں کسی رام جنم بھومی مندر کا تذکرہ نہیں کیا ہے ، نہ تو فاہیان یا ہیون سانگ نے، اور نہ ہی چودھویں صدی کے سیاح ابن بطوطہ نے ، ولیم فخ جو پہلا یورپین سیاح مانا جاتا ہے ، جب وہ ۱۶۰۸ء میں ایودھیا کا ذکر کرتا ہے تو وہ وہاں کے گھاٹوں اور عقیدوں کا ذکر کرتا ہے ، مسجد یا جنم بھومی کا کوئی تذکرہ نہیں کرتا ہے ۔(شہر اولیاء: دبیر احمد: ۲۷۶، ط: فیض آباد، ۱۹۹۱ء)
۰ ابوالفضل نے آئین اکبری اور اکبر نامہ میں صرف اتنا کہا ہے کہ ایودھیا رام چندر جی کی پیدائش کی جگہ کہی جاتی ہے اور یہ یاترا کے لئے مشہور ہے ، جو ۴۰ کوس مشرق ۲۰ کوس شمال سے جنوب تک پھیلی ہوئی ہے ، اس میں چھ سات گز لمبی دو قبریں ہیں ، جو کہ حضرت شیث علیہ السلام اور حضرت ایوب علیہ السلام سے منسوب ہیں اور ان سے متعلق کہانیاں مشہور ہیں ، اس میں بھی مندر گراکر مسجد کی تعمیر کا کوئی ذکر نہیں ۔
۰ سوشیل شری واستو لکھتے ہیں :
میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ عام عقیدہ کہ بابر یااورنگ زیب نے ایودھیا میں مندر گرائے ، ان نظریات کا نتیجہ ہے جو ہندوستان میں برطانوی حکومت کے قیام کے بعد ایجاد کئے گئے ، انگریز اسکالروں نے اس بات کو ہوا دی کہ بابر ایودھیا آیا تھا ، کوئی ٹھوس تاریخی شہادت موجود نہیں ہے کہ بابر یا اورنگ زیب کبھی ایودھیا گیا تھا ، یا اس نے وہاں کسی مندر کو توڑنے کا حکم دیا ۔ (ڈسپوٹیڈ ماسک، سوشیل شری واستو:۶۷، ط: دہلی ۱۹۹۶ء)
۰ پروفیسر ہربنس لال مکھیا کہتے ہیں :
۱۸۲۲ء کے بعد یہ نظریہ اختیار کیا گیا کہ مسجد کی جگہ مندر تھا ورنہ کسی مسلمان یا ہندو کی کتاب میں ایسی کوئی شہادت موجود نہیں ، یہ محض قیاس ہے ، واقعہ نہیں کہ یہاں مندر تھا اور قیاس بھی اسی بنیاد پر ہے کہ چوںکہ بابر مسلمان تھا؛ اس لئے ضرور اس نے مندر توڑا ہوگا ۔ (مضمون: دی ہندو مدراس:۲۶؍ جون: ۱۹۹۴ء)
۰ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر سید شہاب الدینؒ لکھتے ہیں :
ایسا کوئی ثبوت یا شہادت موجود نہیں ہے کہ شری رام کی جائے پیدائش پر بنائے گئے مندر کو ۱۵۲۸ء میں گراکر مسجد بنائی گئی ہو ، پہلے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس مندر کو راجہ بکرما جیت نے ۵۰ سال قبل مسیح بنوایا تھا ، مگر بدقسمتی سے دو مشہور سیاح فاہیان اور ہیون سانگ نے کہیں بھی اپنے سفرنامہ میں اس کا ذکر نہیں کیا ، تب یہ کہا گیا کہ اس مندر کو گیارہویں صدی میں قنوج کے راجہ نے بنایا تھا، اودھ کا علاقہ دسویں اور گیارہویں صدی میں مسلسل اور متواتر افغان حملہ کا نشانہ رہا ، حیرت ہے کہ ان حالات میں بھی یہ مندر بنتا رہا ، بارہویں صدی کے آخر میں ایودھیا مسلمانوں کے قبضہ میں آیا ، ساڑھے تین سو سالوں میں ان مسلمان حکمرانوں نے اس کو کچھ بھی نہیں کیا اوراسے توڑنے کا کام بابر کے لئے چھوڑ دیا ۔ (ریڈ یینس ، دہلی، ۱۹-۲۵؍ مارچ ۱۹۹۵ء)
۰ بابر کا مزاج:
کسی واقعہ کی تصدیق میں اس بات کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے کہ واقعہ جس شخص کی طرف منسوب کیا جارہا ہے ، کیا یہ بات اس کے مزاج سے میل کھاتی ہے ؟ اس پہلو سے غور کیا جائے تو مندر منہدم کرنا اور اس کی جگہ مسجد تعمیر کرنا بابر کے مزاج سے بالکل میل نہیں کھاتا ؛ چنانچہ۲۰؍ جنوری ۱۵۲۶ء کو بمقام دھولپور فارسی زبان میں ہمایوں کے لئے جو وصیت نامہ بابر نے تحریر کیا ہے ، وہ بابر کے مزاج کی صحیح عکاسی کرتا ہے ، اس کا ایک اقتباس اس طرح ہے :
اے میرے فرزند ! ہندوستان مختلف مذاہب سے بھرا پڑا ہے ، بحمد اللہ حق سبحانہ و تعالیٰ نے اس پر تمہیں بادشاہی عطا فرمائی ہے ، تمہیںلازم ہے کہ اپنے دل کو ہر قسم کے مذہبی تعصبات سے خالی کرکے ہرقوم کے طریقہ کے مطابق عدل و انصاف کرو ، اپنی بادشاہی کے اندر کسی قوم کی عبادت گاہوں کو خراب یا مسمار مت کرنا ، ایسا انصاف کرنا کہ بادشاہ رعیت سے اور رعیت بادشاہ سے خوشحال ہوجائے ، اسلام کی ترقی تیغِ ظلم کے بجائے تیغِ احسان سے زیادہ بہتر ہے ، مختلف العقیدہ رعایا کو عناصر اربعہ کی طرح متحد کردو ؛ تاکہ سلطنت کا جسم امراضِ مختلفہ سے محفوظ رہے ۔ (راجندر پرشاد، انڈیا ڈیوائڈیڈ ، تیسرا ایڈیشن، ص: ۳۹)
یہ تحریر اسی زمانہ کی ہے جب بابری مسجد تعمیر ہوئی تھی ، اگر یہ کسی رام جنم بھومی مندر کو توڑ کر بنائی گئی ہوتی تو وہ اپنے بیٹے کو اس طرح کا وصیت نامہ تیار کرکے کیوں دیتا ، بابر کے سلسلہ میں ہندو مؤرخین بھی اس کی شخصیت کی دل آویزی کے قائل رہے ہیں ، اِلٰہ آباد یونیور سٹی کے ڈاکٹر رام پرشاد ترپاٹھی اپنی کتاب رائز اینڈ فال آف مغل امپائر میں تحریر کرتے ہیں کہ :
بابر میں مذہبی جنون بالکل نہیں تھا ، اس کا رویہ ہندو ، افغانی امراء اوررعایا کے ساتھ انتہائی مہذبانہ ، شریفانہ اور دوستانہ ہوتا تھا ، مغل سلطنت کی شان و شوکت صرف اس کی فوجی قوت میں نہیں بلکہ غیر مسلم رعایا کے ساتھ ان کی مذہبی رواداری میں تھی ، جس کی ابتدا بابر سے ہوئی تھی ۔ (رائز اینڈ فال آف مغل امپائر:۱؍۵۴-۵۵)
رام پرشاد کھوسلہ ۱۹۳۴ء میں شائع اپنی کتاب مغل کنگ شپ اینڈ نو بیلیٹی میں بابر کے اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
بابر کی تزک میں ہندوؤں کے کسی مندر کے انہدام کا کوئی ذکر موجود نہیں ، اور نہ یہ ثبوت ہے کہ اس نے کسی کافر کو اس کے مذہب کی وجہ سے قتل کیا ہو ، وہ نمایاں طورپر مذہبی تعصب اور تنگ نظری سے بَری تھا ۔(مغل کنگ شپ اینڈ نو بیلیٹی: ۲۰۷)
بابر نے اپنی کتاب تزک بابری میں بہت دلچسپی سے اور لطف لے کر یہاں کے مندروں کا تذکرہ کیا ہے ؛ لیکن کہیں بھی تعصب کی بناپر مندر توڑنے کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے ، مثلاً : بابر جب گوالیار کے قلعہ میں پہنچا تو وہ لکھتا ہے کہ یہاں کے تالاب کے مغرب میں ایک عالیشان بُت خانہ اتنا بلند ہے کہ قلعہ میں اس سے اونچی کوئی دوسری عمارت نہیں ، دھولپور کے قلعہ سے اس کا نظارہ بڑا دلچسپ ہوتا ہے ، کہتے ہیں کہ بُت خانہ کا سارا پتھر وہاں موجود تالاب کو کھود کر حاصل کیا گیا تھا ، (تزک بابری (اردو ترجمہ:۳۳۲)) اسی طرح بابر جب پھر ارو کی جانب جاتا ہے تو لکھتا ہے کہ اس کے اطراف کے پہاڑ کا ایک ٹکڑا تراش کر چھوٹے بڑے بُتوں کی مورتیاں بنائی گئی ہیں ، اس کے جنوب میں ایک بہت بڑے بُت کی مورتی ہے جو تقریباً بیس گز کی ہوگی ، ان سب بتوں کو ننگا بنایا گیا ہے اور اس کا ستر ڈھکا ہوا نہیں ہے ، (تزک بابری اردو ترجمہ :۳۳۳، انگریزی ترجمہ بابر نامہ: ۶۱۳-۶۱۴) اگر بابر ایودھیا آیا ہوتا ، یہاں کوئی مندر ہوتا اور خاص کر اس کو منہدم کرکے وہاں مسجد بنائی گئی ہوتی تو بابر نے اس کا ذکر کیا ہوتا ۔
بابری مسجد میں موجود کتبہ پر فارسی زبان میں جو تحریر تھی ، اسے اے ایس بیورج نے اپنی کتاب بابر نامہ میں نقل کیا ہے :
بابر کے حکم سے جس کا انصاف ایک ایسی عمارت ہے جو آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے ، یہ فرشتوں کے اُترنے کی جگہ خوش قسمت سردار میر باقی کے ذریعہ تعمیر کی گئی ہے ، یہ کبھی ختم نہ ہونے والا تحفہ ہے ؛ اس لئے اس کی تعمیر کی تاریخ ان الفاظ سے عیاں ہے ، یعنی یہ کبھی ختم نہ ہونے والا فیاضی کا شاہکار ہے ۔ (۹۳۵ھ ، ۱۵۲۸ء)
اس کتبہ کے مطابق بابری مسجد کی تعمیر ۲۹؍ ۱۵۲۸ھ میں مکمل ہوئی تھی ، اگر یہ مندر توڑ کر بنائی گئی ہوتی تو اس کو بنوانے والے میر باقی اسے اپنا نمایاں کارنامہ سمجھتے ہوئے اور اس کی مذہبی حیثیت کو اُجاگر کرتے ہوئے اس کتبے میں اس بات کا حوالہ ضرور دیتے کہ اس مسجد کو کفار کے عظیم رام مندر کو توڑ کر بنایا جارہا ہے ۔
مزید یہ کہ بابری مسجد کی تعمیر (۱۵۲۸ء ) کے ۴۵ سال کے اندر ہی ۱۵۷۵ء میں تلسی داس نے اپنی مشہور کتاب رام چرتر مانس ایودھیا میں بیٹھ کر لکھی تھی ، اگر رام چندر جی جو اُن کے ہیرو ہیں اور ان کی عظیم الشان مندر کو توڑ کر مسجد بنادی گئی تو وہ میر باقی کے ذریعہ مندر توڑ کر مسجد بنانے کا تذکرہ ضرور کرتے ؛ لیکن ایسا کوئی حادثہ ہوا ہی نہیں تھا تو وہ کس بات کا تذکرہ کرتے ؛ بلکہ ان کا تو کہنا ہے کہ ایودھیا سے زیادہ تیرتھ یاترا کے لئے اہم جگہ پریاگ ہے ۔ (جاری)