بابری مسجد پر امکانی عدالتی فیصلہ کے پیش نظر امن و امان کی برقراری پر حکمت عملی

   

ریاستوں کو خصوصی ہدایتیں ، احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زور ، پولیس کی چوکسی
حیدرآباد۔7نومبر(سیاست نیوز) بابری مسجد معاملہ میں امکانی عدالتی فیصلہ کے سلسلہ میں ہر گوشہ سے امن و امان کی برقراری کی اپیلیں کی جا رہی ہیں اور اس با ت کو یقینی بنانے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے پر کوئی جشن یا احتجاج نہ ہونے پائے ۔ تمام فریقین کی جانب سے اس سلسلہ میں اخباری بیانات جاری کرنے کے علاوہ حکمت عملی کی تیاری کے سلسلہ میں اجلاس منعقد کئے جارہے ہیں اور کہا جا رہاہے کہ وہ اس حساس مسئلہ پر کوئی شدید ردعمل ظاہر نہ کریں کیونکہ اس کے دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ملک بھر کے تمام شہروں میں جاری ان سرگرمیوں میں شہر حیدرآباد بھی شامل ہے جہاں مختلف تنظیموں کے ذمہ داروں اور کارکنوں کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے سلسلہ میں حکمت عملی پر غور کیا جا رہا ہے اور اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ اپنے احباب کے علاوہ تنظیم کے ذمہ داروں اور کارکنوں کو حساس مسئلہ کے متعلق باشعور بنایاجائے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے 17نومبر سے قبل فیصلہ سنائے جانے کے امکان کے پیش نظر نہ صرف مرکزی حکومت ‘ حکومت اتر پردیش بلکہ ملک کی بیشتر ریاستوں کی حکومتوں کی جانب سے اپنے محکمہ پولیس کو اس بات کی ہدایات جاری کردی گئی ہیں کہ وہ اس حساس مسئلہ پر کسی بھی طرح کے رد عمل سے نمٹنے کیلئے پوری طرح تیار رہیں۔عدالتی فیصلہ کے سلسلہ میں حکومتوں کی جانب سے کئی ایک احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر غور کیا جارہا ہے اور کہا جا رہاہے کہ حساس شہروں میں انٹرنیٹ خدمات کو بند کرنے پر بھی غور کیا جائے گا اور اس کا اختیار ریاستی حکومتو ں کو ہوگا کہ وہ اپنے شہروں اور حساس علاقوں میں صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد ہی اس سلسلہ میں قطعی فیصلہ کریں۔ذرائع کے مطابق ریاست تلنگانہ میں حکومت کی جانب سے حیدرآباد‘ بھینسہ ‘ عادل آباد‘ نظام آباد‘ کریم نگر‘ ورنگل کے علاوہ رنگا ریڈی اور میدک میں خصوصی صیانتی انتظامات کی ہدایت دی جاچکی ہے اور کہا جا رہاہے کہ ریاست میں بابری مسجد مقدمہ کے فیصلہ کے بعد کسی بھی طرح کے حالات سے نمٹنے کیلئے محکمہ پولیس کو پوری طرح سے چوکس رکھا گیا ہے ۔ حکومت کی جانب سے کئے جانے والے ان اقدامات کے علاوہ شہر اور ریاست کے علاوہ قومی سطح کی تنظیمو ںکی جانب سے فیصلہ کے سلسلہ میں ردعمل ظاہر نہ کرنے کی مختلف ذرائع سے اپیلیں کی جا رہی ہیں اور کہا جار ہاہے کہ اس حساس مسئلہ پر سوشل میڈیا پر بھی کسی بھی طرح کے تبصروں سے گریز کیا جائے۔