جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے سے شدید اختلاف کا اظہار کیا ہے، اس فیصلہ کو حقائق اور سچائی کو نظر انداز کرنے والا اور غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ معزز ججوں نے ایک طرف تو اپنے فیصلے میں بابری مسجد کے اندر مورتی رکھنے اور پھر اسے توڑنے کو غلط اور ظلم ٹھہرایا ہے اور دوسری طرف یہ جگہ ان لوگوں کو دے دی جنھوں نے ظالمانہ طور سے مسجد کو شہید کیا۔یہ ایک مخصوص فرقے کے خلاف سراسر امتیاز ہے جس کی ہرگز امید نہیں تھی۔اس فیصلے سے عدلیہ پر اقلیتوں کا اعتماد متزلزل ہوگیا ہے کہ ان کے ساتھ انصاف کے بجائے نا انصافی ہوئی ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ جب ملک آزاد ہوا اور یہاں دستور ہند کا نفاذ ہوا تو اس وقت بھی وہاں مسجد تھی، نسلوں سے لوگوں نے دیکھا ہے کہ وہاں مسجد تھی اور لوگ نماز پڑھتے تھے۔ یہ سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کی پاسداری کرے اور آئین ہند میں مصرح مسلمانوں کے حق عبادت اور آزادی مذہب کی حفاظت کے لیے فیصلہ کرے جس میں یقینی طور سے بابری مسجد میں بھی عبادت کا حق شامل ہے۔مولانا مدنی نے اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس گانگولی کے بیان کا بھی حوالہ دیا جس میں انھوں نے کہا ہے کہ تاریخ کے طالب علم ہونے کے باوجود ان کے لیے یہ فیصلہ ناقابل فہم ہے۔
مولانا مدنی نے مسلمانوں کو متوجہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ یہ کا فیصلہ اور موجودہ صورت حال مسلمانوں اور ملک کے دیگر انصاف پسند لوگوں کے لیے یقیناً صبر آزما ہے، اس لیے اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم صبر و تحمل کے ساتھ حالات کا مقابلہ کریں اور جھوٹی تسلیوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے اس سے بھی شدید صبر آزما حالات کے لیے ذہنی طور پر تیار رہیں اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہیں۔