بابری مسجد کے متعلق عدالت میں اب تک جو کاروائی ہوئی ہے وہ قابل اطمینان ہے۔ مولانا ولی رحمانی

,

   

بابری مسجد کا معاملہ بلاشبہ ہندوستانی تاریخ میں اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے جس کے مقدمے کی لمبی عمر ہونے کے ساتھ ساتھ ہندوستان جیسے جمھوری اور سیکولر ملک کےلیے امتحان بھی ہے۔ بابری مسجد 1582ء سے 22دسمبر 1949ء تک پورے طور پر مسجد رہی اور اس میں پنج وقتہ نماز پابندی سے ہوتی رہی۔ اس قضیہ کی ابتدا فرقہ پرست طاقتوں نے باقاعدہ 22دسمبر 1949ء کے رات کے اندھیرے میں شری رام جی اور شری لکشمن جی کی مورتی رکھ کرکی اور پہیلی مرتبہ 1949ء میں ملک کو معلوم ہوا کہ رام جی مسجد کے گنبد کی نیچے کی جگہ پر پیدا ہوئے تھے، اسکے بعد عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے گئے، لیکن افسوس کہ عدالتوں سے جمھوری تقاضوں کی تکمیل نہ ہوسکی، سنی وقف بورڈ اترپردیش نے بھی 1961ء میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر ہوا کچھ نہیں، جو مسلمان پنج وقتہ نماز ادا کرتا تھا اسکے داخلہ پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں اخری مرحلہ میں ہے، روزانہ سماعت ہو رہی ہے، 16نومبر تک فیصلہ آجائے گا۔ سپریم کورٹ میں بابری مسجد کے متعلق جو پیروی ہورہی ہے وہ قابل اطمینان ہے اور ججوں کی طرف سے جو مختلف قسم کے تبصرے آرہے ہیں وہ بھی مناسب ہیں۔ ان خیالات کا اظہار آل انڈیا مسلم پرسنل لا بوڑڈ کے جنرل سیکرٹری مولانا محمد ولی رحمانی نے کیا انہوں نے مزید کہا کہ، مزید کہا کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلم پرسنل لاء بوڑڈ نے ملکیت اور حقیقت کے مقدمے کے ساتھ ساتھ لبراہن کمیشن میں بھی زور دار پیروی کی اور آج بھی حق ملکیت کا مقدمہ جو راے بریلی کی عدالت میں زیر سماعت ہے مسلم پرسنل لاء بوڑڈ ماہرین قانون کی نگرانی میں پیروی کر رہا ہے۔ اسکے علاوہ بوڑڈ آثار قدیمہ کی طرف سے کھدائی کے دوران بھی شامل وشریک رہا ہے۔ مولانا رحمانی نے مزید بتایا کہ الہ باد ہائی کورٹ کے لکھنؤ بینچ کے ملکیت کے مقدمے کے فیصلے نے پوری ملت اسلامیہ ہندیہ سمیت پورے ملک کے سیکولر غیر مسلمانوں کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بوڑڈ نے بڑی ذمہ داری کے ساتھ اس فیصلے کی جانچ کےلیے ایک کمیٹی تشکیل دی اور اس کمیٹی کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ ملک کے ممتاز اور سنیئر وکلاء کو منتخب کریں اور وکلاء کی پوری ٹیم بنائیں جو اس فیصلے کا ہر پہلو سے جائزہ لیں۔ الحمدللہ یہ وکلاء کی پوری ٹیم سرگرم ہے اور اپنا کام کر رہی ہے۔ مسلم پرسنل لاء بوڑڈ نے سات فریقوں کی طرف سے سپریم کورٹ میں جواب داخل کیا، ابھی جمیعت علماء ہند ایک مقدمے کی پیروی کر رہی ہے، اور مسلم پرسنل لاء بوڑڈ سات مقدموں کی پیروی کر رہا ہے۔ مولانا نے اس سلسلے میں تمام مسلمانوں سے دردمندانہ اپیل کی ہے کہ جوں جوں وقت قریب آئے گا افواہوں کا بازار گرم رہے گا وہ ان افواہوں پر قطعا دھیان نہ دیں۔مسلم پرسنل لاء بوڑڈ اپنے موقف کے پر پوری قوت کے ساتھ قائم ہے۔ اور قانونی چارہ گوئی کےلیے ہمیشہ کوشش کر رہا ہے۔

(سیاست نیوز)