نئی دہلی ، 9 نومبر (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے ہفتہ کو اپنے فیصلے میں کہا کہ اے ایس آئی کی ایودھیا میں متنازعہ رام جنم بھومی ۔ بابری مسجد مقام کے نیچے کی گئی کھدائی پر پایا گیا کہ وہاں مسجد کے ڈھانچہ کے نیچے بارہویں صدی عیسوی سے تعلق رکھنے والے ہندو مذہبی آثار والا ڈھانچہ ہوا کرتا تھا۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کو کھدائی کی ذمہ داری الہ آباد ہائی کورٹ نے 23 اکٹوبر 2002ء کو سونپی تھی کہ متنازعہ مقام پر سائنسی تحقیق انجام دی جائے۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں 5 ججوں کی بنچ نے متفقہ تاریخی فیصلے کے ذریعے متنازعہ مقام پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کردی اور کہا کہ پرت در پرت کھدائی سے یہ بھی انکشاف ہوا کہ وہاں ایک دائروی مذہبی مقام کا وجود ’مکارا پرنالا‘ کے ساتھ تھا، جو ہندو عبادت گاہ کا اشارہ دیتا ہے جو ماضی میں آٹھویں تا دسویں صدی عیسوی تک قدیم ہوسکتی ہے۔ جسٹس گوگوئی کے ساتھ جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبدالنذیر پر مشتمل بنچ نے کہا کہ آثار قدیمہ کی نیچے کے ڈھانچہ سے متعلق دریافتوں سے اشارہ ملتا ہے کہ وہاں بارہویں صدی عیسوی کی کوئی ہندو مذہبی تعمیر رہی ہوگی۔ عدالت نے کہا کہ اے ایس آئی کی دریافتوں سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ متنازعہ مسجد پہلے سے موجود ڈھانچہ کی بنیاد پر تعمیر کی گئی تھی۔ فاضل عدالت نے کہا کہ مسجد کی تعمیر پہلے سے موجود ڈھانچہ کو بروئے کار لاتے ہوئے اس انداز میں کی گئی کہ آزاد بنیاد کا گمان ہو۔ عدالت نے کہا کہ اے ایس آئی کی قطعی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ کھدائی کے علاقے میں آثار قدیمہ سے متواتر تہذیبوں کا انکشاف ہوتا ہے ، جس کی شروعات دوسری صدی قبل مسیح (بی سی) کے ’نارتھ بلیک پولشڈ ویئر‘ کے دور سے ہوتی ہے۔