اسلام تیرا دین ہے تو مصطفوی ہے
ڈاکٹر محمد سراج الرحمن فاروقی
دورجدید کا فرعون کبیر جس کی درندگی، بربادی غزہ میں کی جارہی نسل کشی کی تمام دنیا کے یوروپی اور افریقی ممالک میں نہ صرف عوامی امڈتا سیلاب مذمت کررہا ہے بلکہ ان مندرجہ بالا ممالک کے سفراء نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں اس خون خوار نیتن یاہو کی تقریر کا بائیکاٹ کیا۔ درجنوں ممالک کے سفیر نہ صرف یو این بلکہ اس کے ہم نوا، ہم پیالہ امریکہ کو یہ بتادیا کہ اقوام متحدہ کی متعدد رولنگ جس میں غزہ کی سفاکانہ نسل پرستی پر امریکہ کی دوغلی پالیسی کی ویٹو پاور کے ذریعہ منسوخ کروانا غیر درست قدم ہے بلکہ شرمناک حرکت ہے جس کی ساری دنیا پرزور احتجاج یو این کے اجلاس میں درج کروایا۔ گرفتاری اور جان کے جوکھم سے ڈرا نیتن یاہو اتنا بزدل ہے کہ جب وہ یو این کے اجلاس میں شرکت کو پہنچا تو عام ہوائی راستے کے بجائے گرفتاری کا وارنٹ جو عالمی عدالت آئی سی جے کے لاگو ہونے کو گھبرا کر میں طویل راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوا۔
صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ ایک طرف امن کے نوبل ایوارڈ حاصل کرنے کا سین کھڑا کررہے ہیں ہندپاک جنگ وہ رکوادیئے، یوکرین۔ روس جنگ کے خاتمہ کیلئے پوٹن سے مذاکرات کروائے اور اب غزہ میں جنگ بندی کا 20 نکاتی فارمولا عرب اور مسلم قائدین کی ملاقات کے اجلاس کے بعد طئے کرتے ہوئے مسلسل حماس کو دھمکیاں دے رہے ہیں، اگر حماس معاہدہ کو قبول نہیں کرتا تو اس پر قیامت برپا ہوگی۔ دراصل حماس اسرائیل سے نہیں امریکہ جیسی سوپرپاور سے مقابلہ اور حوصلہ بلند کیا ہوا ہے حماس کے جیالوں کو امریکہ۔ اسرائیل کا (یاجوج و ماجوج) کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے سارے غزہ کو کھنڈر بنانے کے باوجود اس کے یرغمالیوں کو زندہ یا مردہ حاصل کرنے میں ناکام اور سرنگوں کر دکھا کر بتادیا۔ ایمانی حرارت کے سامنے دنیا کی کوئی سوپرپاور کام نہیں کرسکتی۔ اللہ کی ذات پر ایمان یقین کی قوت کا اندازہ کرنے کے بعد ہی یہ نام نہاد سوپرپاور امن کے معاہدہ پر مجبوراً اتر آئے ہیں۔
غور کریں فلسطین (غزہ) کی کیا صورت حال ہوگی۔ 25 تا 30 لاکھ آبادی والا علاقہ غزہ پٹی خوبصورت پھلتا پھولتا ایک عرصہ دراز سے ہی ناپاک اسرائیل کی پشت پناہی سے گزر بسر کررہا تھا۔ نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی سے کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا۔ دوسری جنگ عظیم سے زیادہ بمباری کی گئی۔ ایک روایت کے مطابق ایک لاکھ سے بھی زیادہ شہادتیں قبلہ اول بیت المقدس کی حفاظت کیلئے دی اور فرض کفایہ ادا کرنے والے معصوم، نہتے، بے یارومددگار بزرگ، جیالے نوجوان، بلبلاتی مائیں، حاملہ خواتین، معصوم و شیرخوار بچے شہادت کا پیالے پئیے۔ ہزاروں زخمی، انگنت نعشیں ملبہ میں دبی ہوئی، بھوک پیاس کا یہ عالم، غذا و پانی کی عدم دستیابی، ہر روز سینکڑوں فلسطینی دم توڑ رہے ہیں۔ داعی اجل کو لبیک کہہ رہے ہیں۔ ہر طرف کہرام مچا ہوا ہے۔ بچے کچے فلسطییوں پر جہاز سے ورقیے گرا کر کبھی ادھر کبھی ادھر جانوروں کی طرح ہانکا جارہا ہے۔ اس نسل کشی، ناکہ بندی کے خلاف صمود فلوٹیلا سمندری کشتیوں کے امدادی سازوسامان 40 ممالک 50 سے زیادہ کشتیوں کو ضبط کرلیا گیا۔ امدادی کارکنوں کے ساتھ بے رحمانہ رویہ اختیار کیا گیا۔
دو ریاستی حل کے Resolution کو ٹھکرایا گیا۔ مذاکرات کے بہانے قطر پر فضائی حملہ ہوا۔ اس غاصب ریاست نے وقت فرعون اور ہٹلر کے غضب کو بھی پیچھے چھوڑ دیا لیکن یہ اہل ایمان، اسلام کے علمبرداروں کی شان و شوکت تو دیکھئے میدان جنگ میں ڈٹے قرآن کی تعلیم، نمازوں کی پابندی، مدد الہٰی، نصرت الہٰی کا عملی نمونہ شیشہ پگھلائی ہوئی دیوار، چٹان کی طرح ڈٹیں نہ ان کو سوپرپاور امریکہ کا ڈر نہ اسرائیل کی درندگی کا خوف۔نہ ہی کسی اندیشے کو مدنظر رکھ کر انہوں نے سودا نہیں کیا، کسی دباؤ کے دھمکی کے آگے نہیں جھکا۔ ایمان کی روشنی ان کے مقابلوں سے جھلک رہی ہے۔ اعتماد کا نور ان کے ماتھوں سے چمک رہا ہے۔ ان کو فانی دنیا کی کوئی فکر نہیں۔ اللہ کی ذات پر کامل یقین، فرمان رسالتﷺ کی تکمیل کے دلدادہ، فرمان رب العالمین پر توکل پر قائم رہنے والے یہ فلسطینی جیالے ساری امت مسلمہ کے غیور، خوداری کو للکار رہے ہیں۔
آج بھی جو ہو ابراہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
مایوسی، ناامیدی، بے بسی، بے کسی سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ کمربستہ، پرجوش، ولولہ انگیز، قابل تقلید مثال، جس طرح یہود کو جان پیاری ہے ان کو شہادت عظمیٰ پیاری۔ یہی نعرہ ہر بزرگ، جوان، مائیں، بہنیں، اطفال، شیرخوار لگارہے ہیں۔
ستم بالائے ستم اسرائیل اب ظلم کا بازار مغربی کنارہ، فلسطین پر بھی کررہا ہے۔ جہاں زبردستی یہودی آباد کار (Settlers) کی زبردست فوجی پشت پناہی کے ذریعہ تباہی مچارہا ہے۔ TRT نیوز کے مطابق ایک ہزار سے زیادہ شہادتیں، دس ہزار سے زیادہ زخمی، کئی گھروں کو بلڈور کے ذریعہ مسمار کیا گیا۔ مساجد کو غیرآباد کیا گیا۔ 19 ہزار سے زیادہ گرفتاریاں جس میں ایک ہزار معصوم بچے ہیں۔ مغربی کنارہ اس تک ظلم کو وسعت دیا۔ امام خطیب بیت المقدس کو گرفتار کیا۔ احاطہ اقصی میں یہودی وزیر نے عبادت کرتے ہوئے خوشیاں منائی لیکن یہ ان کی خام خیالی ہے کہ یہ قابض ہوجائیں گے لیکن معصوم فلسطینیوں کے عزائم سن کر حیرانی ہوگی۔ ہم فلسطینی یہیں پیدا ہوئے ہیں۔ قبلہ اول کی حفاظت ہمیں کرنا ہے، ہم یہیں رہیں گے یہی مقدس عرض پر دفنائے جانے کو پسند کریں گے۔
ساری امت مسلمہ جسد واحد کی طرح ہے۔ دنیا کے کوئی بھی قطعہ میں ان پر ظلم و زیادتی ڈھائی جاتی ہے تو یہ حمیت ایمانی ہے کہ ہمیں اس کا احساس ہونا چاہئے، ہم بذات خود تو اس جنگ میں شریک نہیں ہوسکتے لیکن ہمیں شامل ہونے والوں میں شمار کئے جانے کیلئے سب سے پہلے تمام اسرائیلی پراڈکٹس کا بائیکاٹ کریں۔ ان کے اسٹورس، کیفے کا مقاطعہ اجتماعی طور پر کریں۔ خصوصی دعاؤں، نمازوں میں ان کے غضب کے خلاف رقت انگیزی بتائیں۔ اشک باری سے ان کے غم کو دھوئیں۔ پرامن احتجاجی مہم میں شامل ہوں۔ اپنے قرب جوار کے غرباء مساکین مفلوک الحال لوگوں کی مدد کریں۔ برادران وطن کو اس بربریت سے محبت کے فضا میں آگاہ کریں۔ دعوت دین محنت، ابنائے وطن سے تعلقات بڑھائیں۔ مشن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عام کریں۔ اللہ تعالیٰ ہماری اس مہم میں مدد فرمائے۔ آمین