باغباں بھی ہم گلچیں بھی ہم

   

عثمان شہید ایڈوکیٹ
اسلام نے معاشرہ کا شجر لگایا ۔ جس نے برگ و بر پیدا کئے ‘ سبزہ پیدا کیا ‘ اس کی آبیاری ہم نے کی ۔ اپنے لہو سے کی ۔ سردی و گرمی و بارش سے ہم نے اس درخت کی حفاظت کی ۔ اس کو توانا کیا ۔ اس کی جانوروں سے حفاظت ہم نے کی ۔ یہ ہمارا دینی فریضہ تھا ۔ ایک براعظم سے دوسرے براعظم کی آب و ہوا اس کو راس آگئی ۔ چہچہاتے پرندوں نے اس کو اپنا آشیانہ بنایا ۔ بجلیوں سے حفاظت کی دعامانگی ۔ افسوس ہم باغباں تھے ۔ ہم ہی گلچیں بن گئے ۔ پتھر کے پھول ‘ وحد ت کے پھول ہم نے نوچ لئے ۔ عبادت کے کنول ہم نے اکٹھاڑکر پھینک دیئے ۔ روزہ کے گلاب ہم نے مرجھادیئے ۔ تہجد کی کیران ہم نے اجاڑدیئے ۔ شرک کے کانٹے ہم نے بودیئے ۔ جھوٹ کے ‘ گانجے کے جھاڑ ہم نے اُگائے ۔ شراب کی نہریں ہم نے بہادیں۔ مہر کی رقم سے اجتناب ہم نے برتا ۔ اللہ سے بے رخی کا پودا ہم نے لگایا ۔ قرآن سے بیزاری کی شراب ہم نے پی ۔ اس معاشرے میں ہم نے دھوکہ دہی ‘ چارسوبیسی ‘ ناجائز قبضوں ‘ غیبت کے جام پر جام ہم نے لنڈھائے ۔ صرف دولت کے لئے ‘دنیاوی عیش و عشرت کے لئے۔ جب کہ ہم جانتے ہیں کہ خالی ہاتھ آئے تھے ۔ خالی ہاتھ جائیں گے ۔ دنیاوی دولت عیش و عشرت کا سامان ‘ نہ خدام ‘ موٹر گاڑیاں ‘ نہ اونٹ نہ ہاتھی نہ گھوڑے ہمارے ساتھ جائیں گے ۔
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ
تمہاری ڈگریاں ‘ تمہاری صلاحیتیں ‘ تمہاری قابلیت ‘ تمہارے عہدے ‘ تمہارا سماجی نظام ‘ تمہارے سوٹ ‘ تمہارا رواج ‘ تمہارے سونا چاندی ہیرے جواہرات ‘ زمین کے پلاٹ سب کچھ زمین نگل لے گی ۔ اس اثناء میں ملت میں جتنی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں ان کی گنتی محال ہے۔ نیم کے درخت کے جڑوں کی طرح یہ خرابیاں سماج میں پیوست ہوچکی ہیں ۔ ہر قوم میں ایک خرابی تھی ۔ لیکن تمام خرابیاں ملت محمدیہ میں پیدا ہوچکی ہیں ۔ آئیے ! ان خرابیوں کا اجمالاً جائزہ لیں ۔
سب سے پہلے جھوٹ پر غور کریں ۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان ہرگناہ کرسکتا ہے لیکن جھوٹ نہیں بول سکتا۔ آج اتنا ہی جھوٹ اور فریب کا لبادہ ہم نے اوڑھ لیاہے ۔ نہ اللہ کا ڈر ہے نہ اللہ کے سامنے جوابدہ ہونے کا تصور ہے ۔ ہم آسانی سے جھوٹ کہتے ہیں۔ گویا ہم کو قبروں سے اٹھ کر اللہ کے سامنے جواب دینا نہیں ہے ۔ یہاں ذرہ برابر گناہوں کا حساب لیا جائے گا۔ مسلمان نیکی کرتا ہے خواہ وہ ذرہ برابر بھی کیوں نہ ہو اس کا اس کو اجر ملے گااور ذرہ برابر بھی برا کرتا ہو تو اس کا عذاب اسی گردن پر ہوگا ۔ ڈرو اس وقت سے جب اللہ کے سامنے ہمیں کھڑے ہونا ہے جس سے کوئی بچ نہیں سکتا ۔ ہر فرد سے پوچھا جائے گا کہ اُس نے دنیا میں کیسی زندگی گذاری ۔ قرآن کہتا ہے ’’ہرجھوٹے گنہ گار پر افسوس ہے ‘ ان پر آیتوں کے دہرانے کے بعد وہ اپنے گھمنڈ میں ایسا رویہ اختیار کرتا ہے جیسا کچھ سنا ہی نہ ہو ‘ ایسے اکڑنے والے کو دکھ کی مار پڑے گی خبر سنادو ‘‘(آیت ۷۔۸ ‘سورہ جاثیہ)
ہر باپ کو کمانے کی فرصت ہے ‘ ہر ماں گھریلو کام کے لئے وقف ہے ۔ لیکن نہ نماز کے لئے تین منٹ کا وقت نکال سکتے ہیں نہ قرآن کے لئے چند لمحے دے سکتے ہیں۔ قرآن کو کپڑے میں لپٹ کر اونچی جگہ پر رکھ دیا ہے ۔ سابق صدرجمہوریہ مسٹر شرما نے کیا خوب کہا تھا : جب مولویوں کے ایک وفد نے قرآن کا تحفہ پیش کیا تھا کہ جس کو پڑھنے کے بعد انہوں نے کہا تھا ’’یہ عمل کرنے کی کتاب ہے ۔‘‘ مسلمانوں کو شرم آنی چاہئے کہ سردھننے کے بجائے ہم نے قرآن سے بیزارگی برتی ۔ یاد رکھو ہر خرابی گھر میں پیدا ہوتی ہے ۔ اگر ہم اپنے بچوں کے سامنے محض ایک صفحہ قرآن کا پڑھ کر سنائیں ‘ جھوٹ نہ بولیں توہم نے قرآن کا حق ادا کردیا ۔ چغل خوری ‘ بے ایمانی ‘ دھوکہ دہی وہ بیماریاں ہیں جس کا علاج صرف قرآن میں ہے ۔
نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن
قرآن کے بغیر زندگی ممکن نہیں ۔ دولاکھ چالیس ہزار مربع میل پر فاتح قوم ‘سائنس کی دنیا میں دھوم مچاتی قوم ‘صرف قرآن کے سہارے دنیا میں نئی تاریخ لکھی ۔ اقبال نہ کہا :
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
’’ہر طعن آمیز اشارے کرنے والے چغل خور کی خرابی ہے ۔ ‘‘ (آیت ۱ ‘ سورہ الحمزہ)
افسوس تو یہ کہ ہم نے قرآن کو بقول تسلیمہ نسرین ’’اسے قصے کہانیوں کی کتاب سمجھ کر پس پشت ڈال دیا ہے ۔ ‘‘ ہم جانوروں کی طرح بے حس اور بے غیرتی کی زندگی گزاررہے ہیں ۔ نہ ہمیں شرم ہے نہ غیرت نہ خودداری ۔
سودی لین دین دوسری بیماری ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ۔ اسی طرح شرک کی بیماری بھی جڑپکڑ چکی ہے ۔ جب کہ شرک عظیم گناہ ہے ‘ ناقابل معافی ہے ۔ اللہ شاید ہر گناہ معاف کردے ۔ لیکن شرک کو معاف نہیں کرے گا ۔ یہ سب اس لئے کہ دنیا میں زیادہ دولت کمائیں ۔ عیش کریں ۔ دوزخ سے کسی کو ڈر نہیں ۔’’ سود لینے والا ہمیشہ دوزخ میں جلتا رہے گا۔‘‘ (آیت ۲۶۶‘ ۲۷۴‘ ۲۷۸ ‘ سورہ البقرہ) دیگر یہ کہ ہمارے معاشرے میں مہرکی ادائیگی کا رجحان تقریباً ختم ہورہا ہے ۔ مہر قرض ہے جس کی ادائیگی شوہر پر لازم ہے ۔ اگر نہیں تو اس کے بچے باپ کے مرنے کے بعد اس کی جائیداد سے وصول کرسکتے ہیں۔ بیوی کو اختیار ہے کہ وہ چاہے تو یہ رقم معاف کردے ۔ ( آیت ۴‘سورہ نور)
بہتر ہوگا ہم اھدناصراط المستقیم پر عمل پیرا ہوجائیں ۔ اللہ سے گڑگڑاکر معافی طلب کریں ۔ نماز پڑھیں ۔ روزہ رکھیں ۔
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے