چوبیس گھنٹوں میں 3 خوفناک حملے ، 19 افراد ہلاک ، 50 سے زائد زخمی
کابل : افغانستان میں پولیس چیک پوسٹ پر خود کش بمبار نے بارود سے بھری گاڑی چیک پوسٹ سے ٹکرا دی جس کے نتیجے میں دو اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ افغانستان کے صوبے قندھار کی مرکزی پولیس چیک پوسٹ پر ایک تیز رفتار گاڑی کو روکا گیا تاہم ڈرائیور نے رکاوٹوں کو توڑے ہوئے گاڑی دیوار سے ٹکرا دی جس سے زور دار دھماکا ہوا۔قندھار پولیس چیف کا کہنا ہے کہ چیک پوسٹ پر حملہ خودکش تھا جس میں بمبار نے بارود سے بھری گاڑی چیک پوسٹ سے ٹکرادی۔ حملے میں دو پولیس اہلکار ہلاک اور 8 زخمی ہوگئے۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو قریبی اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔گزشتہ روز صوبے بامیان کے مرکزی بازار میں دو بم دھماکے کیے گئے تھے جس کے نتیجے میں 17 افراد ہلاک اور 45 زخمی ہوگئے تھے جن میں سے 4 کی حالت نازک بتائی جارہی ہے۔تاحال کسی گروپ نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ طالبان نے ان حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے جبکہ داعش کی جانب سے بھی ان حملوں کی ذمہ داری نہیں لی گئی ہے۔قبل ازیں افغانستان کے بامیان میں ہونے والے دو بم دھماکوں میں ایک درجن سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ حملے ایسے وقت ہوئے جب عالمی برادری نے جنگ زدہ ملک میں حالات کی بحالی کے لیے اربوں ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا ہے۔افغانستان کے صوبے بامیان میں سڑک کے کنارے رکھے دو بم دھماکوں سے کم ازکم 14 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ مقامی حکام کے مطابق یہ دھماکے بامیان شہر کے مرکزی بازار میں ہوئے۔ صوبے بامیان کے پولیس سربراہ کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں 12عام شہری اور دو ٹریفک پولیس کے اہلکار شامل ہیں۔
ان دھماکوں میں 45 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔افغانستان کا صوبہ بامیان ملک کی دور دراز پہاڑیوں کے مرکز میں پڑتا ہے اس لیے جنگ زدہ افغانستان میں بامیان دیگر علاقوں کے بہ نسبت کافی محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ حکومت کے ساتھ بر سرپیکار طالبان نے ان حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ 2001 میں امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرکے طالبان کی حکومت کو معزول کر دیا تھا اور تبھی سے طالبان باغی کابل حکومت کے ساتھ بر سر پیکار ہیں۔افغانستان میں اسلامی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ (داعش) بھی کافی سرگرم ہے اور طالبان کی اتحادی ہے تاہم اس نے بھی ابھی تک ان حملوں کی ذمہ داری نہیں لی ہے۔ ماضی میں داعش اس صوبے اور شہر میں کئی بار شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والی ہزارہ برادری کو نشانہ بنا چکی ہے۔افغانستان میں حالیہ مہینوں میں ہونے والے متعدد ہلاکت خیز حملوں کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی ہے۔ امریکہ نے اس برس کے اوائل میں ایک میٹرنیٹی ہسپتال پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری بھی اسی گروپ پر عائد کی تھی جس میں 24 نو زائیدہ بچے اور ان کی مائیں ہلاک ہوگئی تھیں۔طالبان کی قیادت اور کابل کی حکومت تنازعے کے خاتمے کے لیے قطر میں ہونے والی امن بات چیت میں شرکت کرتے رہے ہیں تاہم ان تمام کوششوں کے باوجود حالیہ مہینوں میں تشدد میں کمی کے بجائے اضافہ دیکھا گیا ہے۔یہ حملہ ایک ایسے وقت ہوا جب افغانستان میں بحالی امن کیلئے سوئٹزرلینڈ کے شہر جینوا میں عطیہ دہندگان ملکوں کی کانفرنس چل رہی تھی۔ اس کانفرنس میں دنیا کے کئی ممالک نے افغانستان کو اربوں ڈالر کی مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔