باپ کے نام کی تبدیلی ، بیٹا تین سال سے ڈیٹینشن سنٹر میں بند

   

آسام کے حراستی کیمپ کی پریشان کن صورتحال ، کئی خاندان مشکلات کا شکار

کلکتہ۔ 15 فروری (سیاست ڈاٹ کام)85سالہ محمد ظریف نے کبھی بھی یہ تصور بھی نہیں کیا تھا اسے اپنا نام تبدیل کرنا اتنا مہنگا پڑے گاکہ50سالہ بیٹے کو غیر ملکی قرار دے کر آسام کے حراستی کیمپ میں قید کردیا جائے گااور اس کی وجہ سے پورا خاندان مشکلات سے دو چار ہوجائے گا۔کولکتہ کے پارک سرکس علاقے میں غلام رسو ل مسجد کے قریب ایک بند گلی میں رہنے والے 85سالہ محمد ظریف گزشتہ کئی سالوں سے بیمار ہیں، خاندان کی دیکھ بھال ان کے بڑے بیٹے 50سالہ اصغر علی کرتے تھے جو 1980ء سے پڑوسی ریاست آسام میں کارپینٹر کا کام کرتے تھے۔ مگر اس وقت این آر سی میں نام نہ ہونے اور غیر ملکی قرار دیے جانے کی وجہ سے اصغر علی 2017جولائی سے ہی آسام کے حراستی کیمپ میں بندہیں۔محمد ظریف بیمار ہونے کی وجہ سے بستر سے دوسروں کے سہارا کے بغیر اٹھ بھی نہیں سکتے ہیں۔اپنی چار بیٹیوں کی کفالت کے علاوہ ضعیف محمد ظریف کے کندھوں پر اب اصغر علی کے بچوں کی کفالت کی بھی ذمہ داری آگئی ہے ۔2017میں ہی اصغر علی کو آسام فورن ٹربیونل نے تکنیکی بنیاد پر غیر ملکی قرار دیدیا تھا۔14جولائی 2017سے ہی اصغر علی گول پارا ڈیٹنشن کیمپ میں قید ہیں۔اصغر علی کے وکیل امن عبد الودود جو اس وقت بیرون ملک میں ہیں نے بتایا ہے کہ اصغر علی کو تکنیکی بنیادو ں پر ٹربیونل نے غیر ملکی قرار دیا گیاہے ۔ کیوں کہ ان کے والد نے چند سال قبل اپنانام تبدیل کرادیا تھا۔انہوں نے کہا کہ جب کسی غیر ملکی کو گرفتار کیا جاتا ہے تو وہ اس اس کے ملک میں بھیج دیا جائے گا مگر جب کسی ہندوستانی کو ہی غیر ملکی قرار دیدیا جائے گا تو وہ اسے پھر کہاں بھیجا جائے گا؟۔اس فیصلے کے خلاف اصغر علی نے آسام ہائی کورٹ میں اپیل کی مگر عدالت نے اس فیصلے کو باقی رکھا اور سپریم کورٹ میں بھی اپیل کا کوئی فائدہ نہیں ملا۔10مئی 2019کو چیف جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس سنجیو کھنہ نے اصغر علی کی اپیل کو خارج کردیا۔