بایاں بازو محاذ ، ماضی کے اپوزیشن اتحاد کی اہم کڑی ،بقاء کی جدوجہد سے دوچار

   

کولکتہ۔ یکم جنوری (سیاست ڈاٹ کام) سی پی آئی (ایم) پر مشتمل بایاں بازو محاذ جو ماضی میں قومی سطح پر تمام اپوزیشن پارٹیوں کو متحد رکھنے میں اہم رول ادا کیا کرتا تھا، اب اپنی حیثیت میں سکڑ چکا ہے۔ یہ محاذ جو کبھی غیرکانگریس اور غیربی جے پی پارٹیوں کو یکجا کرنے اور متحد کرنے میں اہم قصہ ادا کرتا تھا۔ اب اس کے ہاں نہ تو وہ اثرورسوخ باقی رہا اور نہ ہی عدد۔ موجودہ ملک کی سیاسی صورتحال میں اس کے دخل اندازی کیلئے اس کے ہاں عدد کی طاقت موجود نہیں ہے جو کسی بھی پارلیمانی سیاست کیلئے نہایت ہی ضروری ہے۔ سی پی آئی (ایم) کے پولیٹ بیورو رکن حنان ملا نے کہا کہ وہ رول جو ماضی میں بایاں بازو نبھاتا آیا ہے، اب وہ رول غیرمقامی پارٹیاں نبھا رہی ہیں۔ مسٹر ملا کسان کی کسان ونگ آل انڈیا کسان سبھا کے جنرل سیکریٹری ہیں، نے کہا کہ آپ کے پاس جتنے ممبر آف پارلیمان ہوں گے، آپ کی حیثیت اتنی ہی مستحکم ہوگی جو فی الوقت ان کے پاس نہیں ہے، لیکن وہ اپنی موجودہ قوت کے ساتھ مرکز میں ایک سکیولر حکومت بننے میں ضرور مدد کریں گے۔ سماج وادی پارٹی جو کبھی بائیں بازو محاذ کی ایک اہم حلیف ہوا کرتی تھیں، کہا کہ بایاں بازو اب غیراہم اور غیرمتعلقہ ہوچکا ہے۔ یہ بات پارٹی کے نائب صدر کرن جے نندا نے کہی۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں سی پی آئی (ایم) کے کم از کم پچاس ارکان پارلیمان ہوا کرتے تھے، لیکن اب نہ تو وہ اعداد ان کے پاس ہیں اور نہ ہی وہ اثرورسوخ۔ 1992ء کے یونائٹیڈ فرنٹ میں پارٹی کے 52 اور 2004ء کی یو پی اے (ون) کے دوران سی پی آئی (ایم) کے 61 نشستیں تھیں ار 1989ء میں وی پی سنگھ دور حکومت میں بایاں بازو کے 52 نشستیں لوک سبھا میں موجود تھیں، لیکن 2014ء انتخابات میں تعداد گھٹ کر صرف 11 رہ گئی

اور ویسٹ بنگال جو اس کا اہم گڑھ سمجھا جاتا تھا جہاں سے کسی وقت 42 ممبر آف پارلیمنٹ منتخب ہوکر آتے تھے۔ ان کی جگہ ترنمول کانگریس نے لے لی اور سی پی آئی (ایم) کا اقتدار صرف کیرالا کی حد تک سکڑ کر رہ گیا ہے جہاں اس کی 20 لوک سبھا نشستیں برقرار رہیں۔ پارٹی اب ہرکشن سنگھ سرجیت اور جیوتی باسو جیسے اعلیٰ پائے کے قائدین کی کمی محسوس کررہی ہے۔ سرجیت سنگھ 1992ء سے 2005ء تک پارٹی کے جنرل سیکریٹری اور جیوتی باسو 1977ء سے 2000 تک وزیراعلیٰ بنگال کے عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ مسٹر حنان نے کہا کہ موجودہ پارٹی قیادت پارٹی کی بقاء کی جدوجہد میں کوشاں ہے اور ان کی پارٹی کی جگہ کو ٹی ایم سی، ایس پی، آر جے ڈی اور ٹی ڈی پی لینے کیلئے کوشاں ہی تاکہ مرکز میں غیربی جے پی حکومت تشکیل پاسکے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی کے ہاں سرجیت ۔ باسو کی طرح بصیرت رکھنے والے نہ تو کوئی قائدین ہیں اور نہ ہی کوئی ٹھوس منشور، 1996ء میں باسو کو وزیراعظم کا عہدہ پیش کیا گیا تھا، لیکن پارٹی نے اس کو ٹھکرا دیا اور سرجیت کو کسی زمانے میں بادشاہ گر کا موقف حاصل تھا جو کسی بھی اپوزیشن اتحاد کو جوڑنے یا بکھیرنے میں اہم رول ادا کرتے تھے۔ سی پی آئی (ایم) سنٹرل کمیپنی ممبر سجن چکرابورتی نے کہا کہ حالیہ تین ریاستوں میں بی جے پی کی شکست کے پیچھے دراصل بائیں بازو کی کسان تحریک کا اہم رول رہا ہے جس کے باعث پارٹی کا برا انجام ہوا۔ اس کے علاوہ کسانوں کی قرضوں کی معافی جیسے کانگریس کے وعدوں نے کسانوں کو بی جے پی کے خلاف کردیا اور پارٹی کو شکست فاش ہوگئی۔