بجٹ میں امیروں پر کرمغریبوں پر ستم

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

حکومت میں وزیر فینانس کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور ہر وزیر فینانس اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں اور پروگراموں میں غریبوں پر زیادہ توجہ مرکوز کی جاتی ہے اور غریب ہی حکومت کی ترجیحات کا مرکز ہوتے ہیں۔ اس طرح کا وزیر فینانس دعویٰ ہی نہیں کرتا بلکہ اس پر فخر بھی کرتا ہے اور یہ اس لئے منصفانہ بھی ہے کہ کیونکہ ہمارے ملک کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ غربت کا شکار ہے۔ اس بارے میں اندازے اور تخمینے مختلف ہوسکتے ہیں، تاہم چند اشاریوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جس میں شہریوں کی فی کس اوسط آمدنی بیروزگاری کی شرح، خوراک کی کھپت (غذائی اشیاء کے استعمال)، امکنہ، حفظانِ صحت شامل ہیں، غریب کے طور پر درجہ بندی کی جاسکتی ہے یعنی مذکورہ اشاریوں کے تناسب کی بنیاد پر یہ درجہ بندی ہوسکتی ہے اور یہ تناسب مختلف ریاستوں میں 25-40% کے درمیان ہوگا۔ جہاں تک کورونا وباء سے متاثرہ برسوں کا سوال ہے، ان (2020-22) میں مسلسل مہنگائی، (سی پی آئی افراط زر 6.5%) اور بیروزگاری (شہری 8.1% ، دیہی 7.6% ) نے صورتحال کو ابتر بنادیا جبکہ سال 2023ء کا آغاز بھی خطرناک رہا۔ بڑی بڑی کمپنیاں ہزاروں کی تعداد میں ملازمین کی کٹوتی کررہی ہے، انہیں خدمات سے فارغ کررہی ہیں جہاں تک بیروزگاری کی بڑھتی شرح کا معاملہ ہے۔
غریب کون ہیں؟
ملک میں بڑھتے ہوئے عدم مساوات غریب اور امیر کے تفاوت نے کئی تلخ حقیقتوں کو بے نقاب کرکے رکھ دیا جس کا اندازہ اکسفام رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے 5% دولت مندوں کے ہاتھوں میں ملک کی جملہ دولت کا 60% حصہ ہے جبکہ 50% آبادی ایسی ہے جس کے ہاتھوں میں ملک کی جملہ دولت کا صرف 3% حصہ ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کے دولت مندوں اور غریبوں کے درمیان کس قدر تفاوت پایا جاتا ہے۔ اپنی عدم مساوات کی رپورٹ برائے سال 2022ء میں چانسل، پکٹپی اور دوسروں نے یہ تخمینہ پیش کیا ہے یا اندازہ لگایا ہے کہ نچلی سطح پر آبادی کا جو 50% حصہ ہے، اسے قومی آمدنی کا صرف 13% حصہ حاصل ہوا ہے جبکہ سرفہرست5% تا 10% (7 تا 14 کروڑ لوگ) اپنی دولت کو ظاہر کرتے ہیں، خرچ کرتے ہیں اور استعمال میں لاتے ہیں، جس سے بازار درخشاں ہوتے ہیں، باالفاظ دیگر 7 تا 16 کروڑ لوگوں کے خرچ کرنے کے باعث بازاروں میں رونق رہتی ہے، کاروبار ہوتا ہے۔ (مثال کے طور پر Lamborghinis کی سالانہ پیداوار برائے سال 2023ء فروخت ہوچکی ہے اور فی الوقت یہ کمپنی 2024ء میں ڈیلیوری کے آرڈرس لے رہی ہے) آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس کمپنی کی ہندوستان میں جو سستی ماڈل کی کار ہے، اس کی ایکس شوروم قیمت 3.15 کروڑ روپئے ہے اور اس طرح کی قیمتی کاریں خریدنے والا انتہائی دولت مند طبقہ ہے، نچلے 50% میں غریب شامل ہیں۔
سی ایم آئی ای کے مطابق ہندوستان میں جملہ افرادیِ قوت 43 کروڑ ہے، ان میں سردست ملازمتیں کرنے والوں یا روزگار کی تلاش کررہے افراد کی تعداد 42.23% ہے جو دنیا میں سب سے کم سطحوں یں سے ایک ہے۔ CMIE یہ بھی انکشاف کرتی ہے کہ ملک کے تمام گھرانوں میں سے 7.8% (تقریباً 2.1 کروڑ گھرانوں) میں کوئی فرد ملازم نہیں ہے۔ 30% (تقریباً 13 کروڑ) ملازمت کرتے ہیں اور یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے مزدور ہیں۔ اوسط ماہانہ گھریلو مصارف یا اخراجات 11,000 ہیں اور یہ گھرانے غریب گھرانوں کے زمرہ اور درجہ بندی میں آتے ہیں۔ حکومت کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 5 میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ 15 تا 49 سال عمر گروپ کی خواتین کی اکثریت (57% ) خون کی کمی کا شکار ہے جبکہ صرف 11.3% بچوں کو جس کا 6 تا 23 ماہ عمر کے گروپ سے تعلق ہے۔
اب بجٹ 2023-24ء کے مصنفین سے پوچھئے کہ ان لوگوں نے غریبوں کیلئے کیا کیا اُن لوگوں نے نچلی سطح پر رہنے والے 50% آبادی کیلئے کیا گیا؟ انہوں نے بیروزگاروں کیلئے اور ان غریبوں کیلئے کیا کیا جنہیں مناسب انداز میں خوراک نہیں ملی۔ ان سوالات کے جواب بجٹ دستاویزات میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر زرعی اور اس سے مربوط سرگرمیوں کیلئے بجٹ تخمینہ 83,621 کروڑ روپئے اور تخمینہ نظرثانی 76,279 کروڑ روپئے جبکہ پی ایم کسان کیلئے بجٹ تخمینہ 68,000 اور تخمینہ نظرثانی 60,000 کروڑ روپئے بتایا گیا ہے۔ سماجی بہبود کیلئے بجٹ تخمینہ 51,780 اور تخمینہ نظرثانی 46,502 کروڑ روپئے ظاہر کیا گیا ہے۔ دوسری طرف شعبہ تعلیم سے بجٹ تخمینہ 1,04,278 کروڑ روپئے اور تخمینہ نظرثانی 99,881 کروڑ روپئے رکھا گیا۔ شعبہ صحت کیلئے بجٹ تخمینہ 86,606 کروڑ روپئے اور تخمینہ نظرثانی 76,351 کروڑ روپئے بتایا گیا ہے۔ درج فہرست ذاتوں کیلئے BE (بجٹ تخمینہ) 8,710 کروڑ روپئے اور تخمینہ نظرثانی 7,722 کروڑ روپئے درج فہرست قبائل کیلئے BE، 4,111 کروڑ روپئے اور RE 3,874 کروڑ روپئے بتایا گیا ہے۔ اس معاملے میں اقلیتوں کے ضمن میں کہا گیا کہ بجٹ تخمینہ 1,810 کروڑ روپئے اور تخمینہ نظرثانی 530 کروڑ روپئے مقرر کیا گیا ہے اور حساس گروپوں کے ضمن میں BE 1,931 کروڑ روپئے ور RE 1,921 کروڑ روپئے اور RE 1,921 کروڑ روپئے ظاہر کیا گیا ہے جہاں تک بجٹ مختص کئے جانے کا سوال ہے۔ اگر سال کے آخر تک جو بجٹ خرچ کیا گیا ہے، وہ کم ہو تو سال کے آغاز میں مختص بجٹ بے جوڑ ہوجاتا ہے یعنی مطابقت نہیں رکھتا۔ اس سے غریبوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اب 2023-24ء کی طرف بڑھتے ہیں۔ جہاں نقطہ نظر کی تبدیلی کے کوئی شواہد نہیں ہیں مثلاً MGNREGA کیلئے 2022-23ء میں تخمینہ نظرثانی 89,400 کروڑ روپئے اور سال 2023-24ء میں بجٹ تخمینہ 60,000 کروڑ روپئے رکھا گیا جبکہ فرٹیلائزر (کھاد) خوراک، پٹرولیم کیلئے تخمینہ نظرثانی 2,35,220 کروڑ روپئے اور تخمینہ بجٹ 1,75,100 کروڑ روپئے، خوراک کیلئے RE برائے سال 2022-23ء 2,87,194 کروڑ روپئے اور BE 1,97,350 بتایا گیا۔ اسی طرح پٹرولیم کیلئے تخمینہ نظرثانی، 9,171 کروڑ روپئے اور بجٹ تخمینہ 2,257 کروڑ روپئے بتایا گیا۔ پی ایم سواستھیا سرکھشا پونیا (ہیلتھ انشورنس اسکیم) کیلئے تخمینہ نظرثانی برائے سال 2022-23ء، 8,270 کروڑ روپئے اور بجٹ تخمینہ برائے سال 2023-24ء 3,365 کروڑ روپئے بتایا گیا ہے۔ قومی سماجی اعانت پروگرام (وظیفہ پیرانہ سالی ، وظیفہ معذورین) کیلئے تخمینہ نظرثانی برائے سال 2022-23ء ، 9,662 کروڑ روپئے اور بجٹ تخمینہ 2023-24ء ، 9,636 کروڑ روپئے بتایا گیا۔ پی ایم پوشن (مڈڈے میلس اسکیم) کیلئے بالترتیب 12,800 کروڑ روپئے اور 11,600 کروڑ روپئے بتایا گیا۔ آتما نربھر بھارت روزگار یوجنا (روزگار اسکیم) کیلئے یہ بالترتیب 5,758 کروڑ روپئے اور 2,273 کروڑ روپئے بتایا گیا ہے۔ اگر مختص رقم خرچ کی جاتی ہے تب ہی روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور لوگوں کو فائدہ ہوگا۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ وزیر فینانس نے اپنی 9 منٹ کی بجٹ تقریر میں لفظ ’’غریب‘‘ کا صرف دو مرتبہ حوالہ دیا۔ بجٹ نے دراصل غریبوں کے پیٹ پر لات مارا ہے۔