پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
ٹامل میں ایک محاورہ ہے جو اس طرح ہے ’’اگر بھوک ہڑتال کریں گے تو تمام دس اڑ جائیں گے‘‘ یہ ایک بامعنی محاورہ ہے، ایسا محاورہ جو سیاست اور انتخابات کی خوبیوں کا نچوڑ ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ دس کیا ہیں جو اڑ جائیں گے۔ وہ دس عنصر یا اہم پہلو عزت، قبیلہ، تعلیم، سخاوت، علم، خیرات، زیاضت، کوشش، صبر و تحمل اور خواہش و تمنا ہیں۔ اس دور جدید میں مذکورہ دس اور ان سے زیادہ خوبیاں ختم ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ خاص طور پر انتخابات کے وقت ان خوبیوں کا فقدان پایا جاتا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بجٹ 2025-26 عین دہلی اسمبلی انتخابات کے موقع پر اور بہار اسمبلی انتخابات سے چند ماہ پہلے پیش کیا گیا ۔ تاہم میں نے ایسا بجٹ اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھا ہے جس کا مقصد انتخابات کے موقع پر عوام کے ووٹ حاصل کرنا تھا۔ ہم اس نکتہ کو یوں بھی بیان کرسکتے ہیں کہ مرکزی حکومت نے جو بجٹ پیش کیا اسے تقریباً ایک سال بعد ہونے والے اسمبلی انتخابات (جیسے کہ رواں سال کے اواخر میں بہار اسمبلی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں) کو ملحوظ رکھتے ہوئے تیار کیا گیا اور پیش کیا گیا۔ بجٹ 2025-26 میں بہار پر سب سے زیادہ توجہ دی گئی۔ خود ہماری عزت مآب وزیر فینانس نے بجٹ میں ایسا ہی کچھ کیا ہے۔ ہماری وزیر فینانس نے حساب لگایا ہیکہ ریاستوں میں فنڈس کی تقسیم کے لئے 1,00,000 کروڑ روپے کا خزانہ تلاش کرنا ہوگا اور بتایا گیا کہ انہیں پیسوں کا خزانہ مل گیا اور پھر انہوں نے ساری رقم ان 3.2 کروڑ عوام کو دینے کا فیصلہ کیا جنہوں نے انکم ٹیکس ادا کیا (ذرا غور کیجئے ہمارے ملک کی آبادی 143 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے اور سارا پیسہ صرف ٹیکس ادا کرنے والے 3.2 کروڑ افراد کو دینے کا فیصلہ کیا گیا) یہ ایک معمولی تفصیل ہیکہ 3.2 کروڑ ٹیکس دہندگان یا ٹیکس ادا کرنے والوں میں متوسط طبقہ، متمول طبقہ، انتہائی متمول طبقہ اور بہت ہی زیادہ دولت مند شامل ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہیکہ تامل زبان میں دس خوبیوں کا جو محاورہ ہے وہ اور حکمرانی کے جدید اقدار جیسے مساوات، سماجی انصاف اور منصفانہ تقسیم کو فی الوقت بری طرح نظرانداز کردیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک کی حکمرانی اور سیاست میں اب ان خوبیوں یا اقدار کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔
سیاسی مقاصد پر مبنی بجٹ : جیسے ہی بجٹ کی تیاری اور اسے پیش کرنے کے عمل کا آغاز ہوا۔ وزیر فینانس آمدنیوں میں گراوٹ سے پیدا ہونے والے ماشی دباؤ کے زیر اثر تھیں۔ مرکزی وزارت فینانس (MoF) نے اس امر کا تخمینہ لگایا کہ مرکزی حکومت کے Total Reciept تخمینہ بجٹ 2024-25 کی بہ نسبت 60 ہزار کروڑ روپے تک کم ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ اگر وزیر فینانس چاہتی تھیں کہ 2024-25 کے مالی خسارہ میں بہتری آئے۔ ان حالات میں وزیر فینانس کو کم از کم 43000 کروڑ روپے تلاش کرنے تھے اور بحیثیت مجموعی ایک لاکھ کروڑ روپے کمانے تھے۔ دوسری طرف دہلی اسمبلی انتخابات قریب تھے اور اگر انتخابات میں عوام کو رجھانے کے لئے پرکشش مراعات تحفہ و تحائف دینے پر غور کیا جائے تو انہیں 2025-26 میں اضافی فنڈس درکار ہوتے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ غالب امکان یہی ہیکہ انکم ٹیکس میں کٹوتی کا فیصلہ حکومت کی اعلیٰ سطح پر کیا گیا تھا لیکن ٹیکس دہندگان کے کس طبقہ کو فائدہ حاصل ہونا چاہئے؟ Aw-Shucks (جیسا کہ ٹرمپ نے کہا ہوگا) ہر انکم ٹیکس دہندہ کو اسے حاصل کرنے دو ایسے میں قابل ٹیکس آمدنی کی حد کو 7 لاکھ روپے سے بڑھاکر 12 لاکھ روپے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس ضمن میں وزیر فینانس کا کہنا تھا کہ اس فیصلہ سے حکومت پر 1,00,000 کروڑ روپے کا بوجھ عائد ہوگا۔
PERIODIC LABOUR FORCE SURVEY (PLFS) کے مطابق نوجوانوں میں بیروزگاری کے شرح 10.2 فیصد اور گریجویٹس بیروزگاری کا فیصد 13 پایا جاتا ہے۔بجٹ دستاویز میں روزگار پیداوار اسکیمات کیلئے صرف، آٹھ لائن مختص کی گئی جبکہ پیداور سے منسلک اسکیمات کیلئے جنکو (PLI Schemes) کہا جاتاہے کیلئے صرف پانچ لائن مختص کی گئی ہیں۔ 2024-25 کا تخمیمی بجٹ جو صرف آٹھ لائن پر مشتمل تھا Rs. 28,318 کروڑبتایا گیا جبکہ نظر ثانی تخمینہ Rs. 20,035 کروڑ رکھا گیا ہے۔
50% نچلی سطح نظر انداز
PLFS کے مطابق تنخواہ یافتہ مزدور ی فیصد سات سالوںمیں Rs. 12,665 سے گر کر Rs. 11,858 رہ گئی جبکہ خو د پیشہ مزدوروں کی فیصد Rs. 9,454 سے گر کر Rs. 8,591 رہ گیا۔اسی طرح خواتین مزدوری کا بھی فیصد انحطاط پزیر رہا۔ Household Comsuption Survey کے مطابق دیہی ماہانہ فی کس اخراجات Rs. 4,226 جبکہ شہری اخراجات کا فیصد Rs. 6,99بتایا گیا ہے۔یہ ہندوستان کی تمام آبادی کا فیصد ہے۔یہ دراصل تمام آبادی کا 25 فیصد کمترین یا پھر سب سے اقل ترین فیصد کہا گیا ہے۔کس طرح سے ایک مختصر فیملی جو صرف چار افراد پر مشتمل ہیان کا فی کس اخراجات 4xRs.4000-7000 (or less) جس میں غذا۔بجلی۔تعلیم۔صحت عامہ۔کرایہ جات۔ٹرانسپورٹ۔قرضہ جات کی ادائیگی ۔ تفریح۔ سماجی ضروریات اور ہنگامی اخراجات شامل ہیں۔
معاشی سروے کے مطابق ہندوستان کو ہر سال 78.5 لاکھ غیر اراضی روزگار 2030 تک پیدا کرے ہونگے۔پچھلے دس سالوں میں ہندوستان کا پیداواری شعبہ مکمل طور پر معدوم ہوکر رہ گیا۔ورلڈ بینک کے مطابق 2014 کا جی ڈی پی 15.07 فیصد سے گھٹ کر صرف 2023 میں صرف 12.93 فیصد رہ گیا۔بمقابلہ چین کے ہندوستان کا پیداواری فیصد صرف 2.8 ہے جبکہ چین کا 28.8 فیصد پایا جاتاہے۔پیداواری شعبہ کو اسطرح سے ترقی نہی دی گئی کہ وہ زیادہ سے زیادہ ملازمتیں فراہم کر سکیں۔اس میں یومیہ اجرت مزدور اور خودساختہ پیداواری عناصر بھی شامل ہیں۔Made in India کا نعرہ بھی بری طرح سے ناکا رہا۔
ہندستانی معیشت جس طر ح سے ترقی کرنی تھی اسی طرح سے نہی کی گئی۔وزیر مالیات کی تقریر Feb 01, 2025 کے مطابق آبادی کا صرف معمولی فیصد امیر ترین بن گیا جبکہ آبادی کا متوسط طبقہ (جو آبادی کا 30 فیصد ہے) ایک آرام دہ زندگی گزارہا ہے۔جو کچھ بھی ہو ہندوستانی حکومت نے 50 فیصد نچلی سطح پر گذارہ کرنے والی آبادی کو بہت ہی ظالمانہ طریقہ سے کچل کر رکھدیا ہے۔