بجٹ نہیں بچت کریں

   

محمد مصطفی علی سروری

روی گوڈا کا تعلق کرناٹک سے ہے۔ 30 سالہ روی کی شادی 20؍ اپریل کو بنگلور کے راجہ راجیشوری کے فنکشن ہال میں مقرر تھی۔ شادی کی اس تقریب میں تقریباً ڈھائی ہزار لوگوں کو مدعو کرنے کا پلان بنایا گیا تھا۔ بنگلور میں فنکشن ہال کی بکنگ اور دیگر انتظامات کے لیے 10 لاکھ کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ لیکن جب مارچ 2020ء میں کورونا وائرس کے سبب ملک بھر میں لاک ڈائون نافذ کردیا گیا اور اس وبا کے جلد ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے تو روی گوڈا نے شادی کی تاریخ کو آگے بڑھانے کے بجائے وقت مقررہ پر ہی کرناٹک کے منڈیا ضلع کی ایک مندر میں بالکل سادہ طریقہ سے شادی کرلی۔ روی کو سادگی سے شادی کرنے پر کوئی افسوس نہیں ہے۔ خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے حوالے سے اخبار دکن ہیرالڈ نے 31؍ مئی 2020ء کو یہ خبر شائع کی۔ خبر میں مزید ایک شادی کا بھی ذکرتھا۔ تفصیلات کے مطابق کیرالا کے کنور سے تعلق رکھنے والے تھنوج اور چیتنیہ کی شادی 30؍ اپریل کو کنور میں ہی مقرر تھی۔ تھنوج ایک آئی ٹی پروفیشنل ہے اور چیتنیہ ایک کمپنی میں ریسرچ انالسٹ کا کام کرتی ہے۔ یہ دونوں بنگلور میں کام کرتے ہیں۔ لاک ڈائون کی وجہ سے ان لوگوں نے کیرالا جاکر شادی کا ارادہ ترک کردیا اور 30؍ … تک انتظار کرنے کے بجائے 24؍ مئی کو ہی بنگلور میں لڑکی کے چاچا کے گھر میں شادی کرلی جس میں صرف 12 لوگ شریک تھے۔

یہاں تک کہ لڑکی کی شادی کے زیورات بھی کیرالا کے بینک کے لاکر میں رکھے ہوئے تھے اور لڑکے و لڑکی کے والدین بھی کیرالا میں تھے۔ وہ لوگ بھی اس شادی میں شریک نہیں ہوئے اور Zoom کی مدد سے ان لوگوں نے اپنے گھروں میں شادی کا سارا منظر دیکھا اور نوبیاہتا جوڑے کو نیک تمنائوں سے نوازا۔ دی ٹریبیون پنجاب سے شائع ہونے والا انگریزی اخبار ہے۔ یکم ؍ جون 2020ء کو اخبار نے “Marriage in Covid times: No baraat, bike replaces doli” کی سرخی کے تحت اپنے رپورٹر مانو مندر کی ایک رپورٹ شائع کی۔ساحل اور جیوتی کی شادی طئے ہوگئی تھی۔ جالندھر کے ان لوگوں نے 24؍ مارچ کو اپنی منگنی مقرر کی تھی۔ مگر قسمت کا کرنا ایسا ہوا کہ اسی دن کورونا سے نمٹنے لاک ڈائون کا اعلان ہوگیا اور منگنی کی تقریب نہیں ہوسکی۔ لڑکے اور لڑکی والے انتظار کر رہے تھے کہ لاک ڈائون ختم ہونے کے بعد شادی کریں گے لیکن ان لوگوں نے جب دیکھا کہ یہ تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا تو ساحل اور جیوتی کے گھر والوں نے 31؍ مئی کو لاک ڈائون کے دوران ہی شادی کردینے کا فیصلہ کیا۔
قارئین ساحل اور جیوتی کے گھر والوں کی فینانشیل پوزیشن کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امرجیت سنگھ جو لڑکی کے والد ہیں نے اخبار کو بتلایا کہ انہوں کا اپنی لڑکی کی منگنی کے لیے ایک ریسارٹ بک کروانے کا منصوبہ تھا جس کا صرف کرایہ 9 لاکھ روپئے تھا۔ جیوتی کے والد امرجیت سنگھ کے مطابق انہوں نے اپنی لڑکی کی شادی صرف 20ہزار روپیوں میں کردی۔ لڑکے والوں کی طرف سے 8لوگ اور لڑکی والوں کی طرف سے 10 لوگ اس شادی میں شریک تھے۔ اور یہ شادی ایک گرودوارے میں انجام دی گئی جس میں شرکت کرنے والوں کی High Tea سے تواضع کی گئی۔ساحل کی ماں نیلم نے اخبار کو بتلایا کہ جس سہولت اور آسانی سے میرے اس بچے کی شادی ہوئی ہے کوئی مالی بوجھ نہیں۔ کوئی ٹنشن نہیں۔ ہم نے تو اس شادی کے لیے جتنا کچھ خرچ سوچ کر رکھا تھا اس ساری رقم کو دولہا دلہن کے نام سے بینک میں ڈپازٹ کردینے کا فیصلہ کیا ہے اور دولہے کی ماں نے مزید بتلایا کہ میں تو اب اپنے دوسرے لڑکے کی شادی بھی بالکل ایسے ہی سادے انداز میں کرنا چاہتی ہوں۔

تاملناڈو کا رہنے والا شکتی ویل ایک اے سی میکانک ہے۔ لاک ڈائون کے دوران شکتی نے اپنے گھر کی چھت پر ہی شادی کی تقریب منعقد کی جس میں قریبی رشتہ دار موجود تھے۔ شکتی کے مطابق اس نے شادی میں لاکھوں کا بجٹ بناکر رکھا تھا لیکن سادی شادی کے سبب اس کا 75 فیصدی بجٹ اب بچت میں بدل گیا ہے اور وہ اس حوالے سے خوش ہے۔ (بحوالہ PTI کی رپورٹ)
قارئین کووڈ 19 کی وبا نے صرف انفرادی طور پر افراد کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ سرمایہ داروں اور تو اور حکومتوں کے خزانے بھی خالی ہوئے ہیں۔ حکومت تلنگانہ کے خزانے میں اتنے روپئے بھی نہیں رہے کہ وہ اپنے سرکاری ملازمین کو پوری تنخواہیں ادا کرسکے۔ گذشتہ تین مہینوں سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کی جارہی ہے۔ ملک بھر میں ہر علاقے اور ہر مذہب کے لوگ اب اپنے اخراجات کو کم سے کم کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کر رہے ہیں تاکہ خاص طور پر مالی بچت کو موثر طریقے سے استعمال کر سکیں۔
شہر کے ایک صاحب کے متعلق بتلایا گیا کہ دن میں لاک ڈائون میں دی گئی نرمی کے دوران وہ اپنے لڑکے کی شادی تو کرنا چاہتے ہیں مگر غیر ضروری افراد کے اجتماع سے بچنا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ انہیں کسی ایم ایل اے یا ایم پی کی سفارش کے ساتھ 200لوگوں کو شادی میں دعوت دینے کی اجازت مل جائے۔

ان کے مطابق میری حیثیت تو 2000 لوگوں کو دعوت دینے کی ہے اور مجھے اپنے بچے کی شادی میں 200 لوگوں کو بلانا ضروری ہے۔ اس سے کم کو تو میں نہیں بلا سکتا۔لوگ کیا کہیں گے کہ ’’سیٹھ صاحب بھی اپنے گھر کی شادی سادگی سے کرلیے۔ ‘‘قارئین میں صرف اور صرف تشخیص کے لیے ان مسائل کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کو حل کرنے کے لیے فوری توجہ دینا ضروری ہے۔
مانسون کی باضابطہ آمد سے قبل ہی شہر میں غیر موسمی بارش سے بہت سارے شہریان نے سکون کی سانس لی تو محمد رفیع الدین (نام تبدیل) کی پریشانیاں اچانک بڑھ گئیں۔ ویسے موسم گرما سے انہیں کوئی خاص لگائو نہیں تھا۔ گرمی سے بچائو کے لیے ان کے ہاں باضابطہ ایئر کنڈیشن تھے اور موسم ٹھنڈا ہونے سے ان کا بجلی کا بل بھی کم ہونے والا تھا۔ قارئین اب میں آپ کو ان صاحب کی اصل پریشانی بتلانا چاہوں گا کہ مارچ میں لاک ڈائون کا جب اعلان ہوا تو سوائے اشیائے ضروریہ کے سب بازار بند ہوگئے تو رفیع صاحب نے اپنے گھر میں سبھی راشن اور ضروری سامان اسٹور کرلیا۔ انہوں نے کتنا چاول اور آٹا خریدا اس بات کا پتہ تو اس وقت لگا جب شہر میں دوسری غیر موسمی بارش کے بعد رفیع صاحب نے اپنے ایک دوست کو فون کیا جو پورے لاک ڈائون کے عرصے میں غریبوں کے لیے کھانے اور راشن کی تقسیم کا کام کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ ارے بھائی صاحب چاول اور دالوں کے علاوہ کچھ راشن کا سامان ہے جو تھوڑا سا پانی میں بھیگ گیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اس راشن کو غریبوں میں بانٹ دیا جائے۔
پوچھنے پر پتہ چلا کہ لاک ڈائون کے آغاز میں ہی انہوں نے اپنے گھر میں تقریباً 6 مہینوں کا راشن اسٹور کرلیا تھا لیکن اچانک غیر موسمی بارش کا پانی ان کے اسٹور روم میں گھس گیا جس میں وہاں رکھا راشن خراب ہوگیا جس میں 25 کیلو چاول کے 13 تھیلے بھی شامل تھے۔
کیا ہی اچھا نہیں ہوتا کہ چاولوں کے یہ 13 تھیلے اچھی حالت میں اور اصل لاک ڈائون کے دوران ہی ضرورت مندوں میں بانٹ دیئے جاتے۔ خیر میں اپنے اصل موضوع کی طرف لوٹ آتا ہوں کہ اخبار دی ٹریبیون نے 3؍ جون کو بھٹنڈا سے ایک خبر دی کہ پولیس نے پنجاب میں بی جے پی کے سکریٹری سکھ پال سنگھ کو گرفتار کرلیا۔ سکھ پال پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک مسلم نوجوان کے گھر پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ پتھرائو کیا۔ کیوں کہ اس مسلمان نے ایک ہندو لڑکی سے شادی کر کے بھٹنڈا کے ایک گھر میں پناہ لی ہوئی تھی۔ پورے ملک کا مسلمان پریشان ہے۔ بے شمار الزامات کا سامنا ہے۔ مسائل کا انبار ہے۔ وسائل محدود ہیں۔ مسائل میں لو جہاد بھی شامل ہے اور آج بھی مسلمان نوجوان ہندو لڑکیوں سے شادی کر رہا ہے۔ کون کس کو سمجھائے؟ کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ اپنی ذات کا جائزہ لیجیے۔بقول اشفاق احمد
مسلمانوں کے نہ رکنے والے زوال کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے آسانیاں تقسیم کرنے کی میراث چھوڑ کر رکاوٹیں کھڑے کرنے کا فن اختیار کیا ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے اور ہمیں باٹنے والا بنائے۔ آمین یارب العالمین۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]