بجٹ کی رسم ادا ہوئی ۔ فائدہ کچھ نہیں

,

   

پی چدمبرم
صدرجمہوریہ کا خطبہ، معاشی سروے اور بجٹ، تین دستاویزات ہیں؛ نیز مواقع بھی ہیں کہ حکومت کی پالیسیوں اور مقاصد کی صاف صاف وضاحت کی جائے۔ میں نے دیگر امور کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صدرجمہوریہ کے خطبہ میں ممکنہ اشارے دیکھنے کی کوشش کی کہ کس طرح حکومت سنگین معاشی انحطاط سے نمٹنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ مجھے کوئی اشارہ نہ ملا۔
میں معاشی سروے کی طرف متوجہ ہوا۔ اِس سال یہ کام نئے ماہر معاشیات مسٹر کے وی سبرامنیم نے انجام دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے وہ ٹامل مصرعہ اور معاشیات کو یکساں چاہتے ہیں۔ مرکزی موضوع ہے کہ دولت کی پیداوار اچھی ہے اور دولت پیدا کرنے والوں کا ضرور احترام کیا جانا چاہئے۔ یہ ایسا خیال ہے کہ جو اَب انوکھا رہا نہ متنازع۔ معاشی سروے میں واحد چیلنج بھرا باب یہ ہے کہ کس طرح مارکیٹس میں حکومتی مداخلت مدد سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے، اگلے روز وزیر فینانس نے شاہانہ انداز میں اس مشورے کو نظرانداز کردیا! انھوں نے بنیادی ڈھانچہ سے متعلق اصلاحات کے بارے میں تمام دیگر سفارشات بھی نظرانداز کردیئے۔
آئیے! اب بجٹ 2020-21 ء پر نظر ڈالتے ہیں۔ میرا ارادہ بجٹ کا تجزیہ …اعداد و شمار، تقریر اور تجاویز… تین زمروں کے تحت کرنا ہے: قدراندازی، اساسی فلسفہ اور اصلاحات۔
ناقص قدراندازی
گزشتہ بجٹ جولائی 2019ء میں پیش کرنے کے بعد دباؤ کے حالات میں کئی چیزیں کی گئیں، اس لئے 2019-20ء کے بجٹ تخمینہ جات کیلئے ایف ایم (وزیر فینانس) کو ذمہ دار ٹہرانا مناسب نہیں ہے۔ پھر بھی، یہ ضرور نوٹ کیا جانا چاہئے کہ وہ متعدد معاملوں میں ناکام ہوئیں:
l جی ڈی پی کی متوقع شرح 12 فیصد (معمولی طور پر) کے برخلاف جی ڈی پی 2019-20ء میں صرف 8.5 فیصد کی شرح پر بڑھے گی۔ تخمینہ برائے 2020-21ء دس (10) فیصد ہے۔
l بجٹ تخمینہ 3.3 فیصد کے برخلاف مالیاتی خسارہ 2019-20ء میں 3.8 فیصد رہے گا اور اسے 2020-21ء میں 3.5 فیصد بتایا گیا ہے۔
l 16,49,582 کروڑ روپئے کی تخمینی خالص ٹیکس وصولیات کے برخلاف حکومت ختم مارچ 2020ء سے قبل صرف 15,04,587 کروڑ روپئے وصول کرپائے گی۔
l 1,05,000 کروڑ روپئے کے نج کاری نشانہ کے برخلاف اس مساعی سے رواں مالیاتی سال صرف 65,000 کروڑ روپئے حاصل ہوں گے۔
l 2019-20ء میں 27,86,349 کروڑ روپئے کے جملہ مصارف برداشت کرنے کے ارادے کے برخلاف حکومت صرف 26,98,552 کروڑ روپئے خرچ کرے گی حالانکہ 63,086 کروڑ روپئے کا اضافی قرض لیا گیا ہے۔
کوئی اساسی فلسفہ نہیں
یہ گہرے شبہ کا معاملہ ہے کہ آیا بی جے پی حکومت کے پاس کوئی بنیادی معاشی فلسفہ ہے بھی یا نہیں؟ اس کے فلسفہ کو جاننا ہو تو متعدد وضعی الفاظ یا acronyms (ایسا لفظ جو کئی الفاظ کے پہلے حروف کو ملا کر بنا لیا جائے) کو جمع کرنا پڑے گا جو گزشتہ چھ سال میں عوام پر تھوپے گئے ہیں۔ بنیادی طور پر اُن کے رہنما اُصول خود پر انحصار، تحفظ پسندی، کنٹرول، تاجرین کے حق میں جانبداری (پیداوار کرنے والوں اور صارفین کے برعکس)، جارحانہ ٹیکس کاری اور حکومتی مصارف پر اطمینان معلوم ہوتے ہیں۔
کیا بجٹ 2020-21ء نے حکومت کی سوچ میں کوئی تبدیلی کا اشارہ دیا ہے؟ اس کا جواب ہے ’نہیں‘۔ درحقیقت، وزیر فینانس نے ملک کو درپیش وسیع معاشی بحران کے بارے میں اپنی حکومت کی سوچ و فکر کی صاف صاف وضاحت نہیں کی ہے۔ نہ انھوں نے کہا کہ آیا ان کی حکومت کے خیال میں یہ تنزلی بنیادی ڈھانچہ کے عوامل یا دورانیہ سے متعلق عوامل کے سبب ہے۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت بدستور انکار کے موڈ میں ہے؛ حکومت کو انکار ہے کہ معیشت طلب کی کمی اور سرمایہ کی قلت سے دوچار ہے۔ حقیقت قبول نہ کرنے کی وجہ سے حکومت نے سنجیدہ نوعیت کے اصلاحی اقدامات کا جائزہ لینے یا دوہرے چیلنجوں کے حل تجویز کرنے سے انکار کیا ہے۔
حکومت کا ’اصلاحات‘ کا طریقہ ٹیکس دہندگان کو ٹیکس راحت کے کچھ اقدامات کردینا ہے۔ چند ماہ قبل کارپوریٹ سیکٹر کیلئے ایسا کیا گیا تھا؛ اِس بجٹ میں 40,000 کروڑ روپئے کی راحت شخصی انکم ٹیکس دہندگان کو دی گئی ہے۔ وزیر فینانس کارپوریٹ اداروں کے دباؤ میں بھی آگئیں اور ’ڈیویڈنڈ ڈسٹری بیوشن ٹیکس ‘ کو ختم کردیا۔ اس حقیقت سے کسے انکار ہے کہ ’ڈی ڈی ٹی‘ مؤثر ٹیکس رہا اور اس نے نفع والی آمدنی پر تمام ٹیکس چوری کو روکے رکھا تھا۔ مجھے یقین ہے ڈی ڈی ٹی کو ختم کرنے کی وجہ سے آمدنی کا نقصان ہوگا۔
اِس مرتبہ وزیر فینانس نے دو ٹیکس سسٹم متعارف کرائے ہیں (ایک استثنا کے ساتھ اور ایک استثنا کے بغیر) اور شخصی انکم ٹیکس ترکیب کو کئی شرحوں کے ساتھ پیچیدہ بنا دیا ہے… وہی غلطی جو حکومت جی ایس ٹی کو متعارف کرتے ہوئے کی تھی۔
اصلاحات سے دستبرداری
وزیر فینانس نے تین مختلف موضوعات پر مبنی خاکے پیش کئے اور ہر ایک کے تحت کئی گوشے اور کئی پروگرام ہیں۔ مثال کے طور پر موضوع پُرعزم ہندوستان کے تحت انھوں نے تین گوشوں کی شناخت کی، اور ہر گوشہ کے تحت انھوں نے کئی پروگراموں کا اعلان کیا ہے۔ اسی نوعیت پر انھوں نے دیگر دو موضوعات ’سب کی معاشی ترقی‘ اور ’حساس سماج ‘ کی تفصیل بیان کرنے کیلئے تقریباً ایک گھنٹہ وقف کیا۔ جب وہ اپنی بات ختم کرچکیں، میرے لئے موضوعات، گوشوں اور پروگراموں کی تعداد یاد رکھنا مشکل ہوگیا۔ تقریر سنتے ہوئے اور بعد میں متن پڑھنے پر مجھے ایسی کوئی چیز نہیں ملی جسے کسی بھی شعبہ میں structural reform کہا جاسکے۔ مجھے تعجب ہے کہ چیف اکنامک اڈوائزر کی محنت کا کیا ہوا؟
دوسری طرف ، وہ دعوے دیکھئے جو وزیر فینانس نے بڑی سنجیدگی سے کئے ہیں:
1۔ ہم نے 2014-2019ء کی مدت کے دوران 271 ملین افراد کو غربت سے نکالا ہے۔
٭ اس میں مدت کی بڑی غلطی ہے۔ یہ مدت دراصل 2006-2016ء ہے۔
2۔ ہم 2022ء تک کسان کی آمدنی دوگنی کردیں گے۔
3۔ ’سوچھ بھارت‘ زبردست کامیابی ہے اور سارا ملک ’کھلے میں رفع حاجت‘ سے پاک ہوگیا ہے۔
4۔ ہم نے برقی (بجلی) کو ہر گھر تک پہنچایا ہے۔
5۔ ہم 2024ء تک انڈیا کو 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت بنائیں گے (اس کے برعکس معاشی سروے نے اس مدت کو رازداری سے 2025ء تک بڑھا دیا ہے)۔
بجٹ تقریر اور بجٹ کے اعداد و شمار سے حاصل ہونے والا کلیدی نکتہ یہ ہے کہ بی جے پی نے معیشت کو بحال کرنے یا شرح ترقی میں تیزی لانے یا خانگی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے یا صلاحیت کو بڑھانے یا نوکریاں پیدا کرنے یا عالمی تجارت سے زیادہ حصہ جٹانے کی کوششوں سے دستبرداری اختیار کرلی ہے۔
لہٰذا، خود کو ایسی معیشت کیلئے تیار کیجئے جو 2020-21ء میں غیراطمینان بخش شرح ترقی پر لنگڑاتی رہے گی۔ میں جانتا ہوں آپ اس کے مستحق نہیں ہیں لیکن مجھے افسوس ہے یہی کچھ آپ کو کل بھی حاصل ہوا تھا۔