بجٹ 2020 میں کیا ہوگا

   

راست محصول معافی اسکیم متعارف کروائے جانے کا امکان

حیدرآباد ۔25 جنوری (سیاست نیوز) مرکزی وزیرفینانس نرملا سیتارامن ایک ایسے وقت مرکزی بجٹ 2020ء پیش کرنے والی ہیں جبکہ سارے ملک میں این آر سی ؍ این پی آر اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ ملک کے بے شمار علاقہ ایسے ہیں جہاں نفاذ قانون کی ایجنسیاں اور ریاستی حکومتیں مظاہرین کے سامنے بے بس نظر آرہی ہیں۔ دوسری طرف دی اکنامسٹ کے عالمی جمہوری اشاریہ میں ہندوستان کے مقام میں گراوٹ آئی ہے۔ اس ضمن میں کہا جارہا ہیکہ شہریت ترمیمی قانون اور جموں و کشمیر کو آرٹیکل 370 کے تحت حاصل خصوصی موقف کی برخاستگی اس کی اہم ترین وجوہات ہیں۔ دی اکنامسٹ کے گلوبل ڈیموکریسی انڈکس میں یہ بھی کہا گیا ہیکہ ہندوستان میں شہری آزادی کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ہندوستانی وزیراعظم نریندرمودی کی قیادت میں اقتصادی محاذ سے لیکر جمہوری محاذ پر بھی گراوٹ کا شکار ہورہا ہے۔ ساتھ ہی حکومت کے پاس عوام کے اس سوال کا جواب ہی نہیں ہیکہ آخر ملک معاشی سست روی کا شکار کیوں ہے؟ اگرچہ حکومت یہ دعویٰ کررہی ہیکہ ملک کی معیشت مستحکم ہے اور حقیقت میں ایسا ہی ہے تو پھر مودی حکومت ریزرو بینک آف انڈیا سے رقم کیوں مانگ رہی ہے۔ بہرحال مودی حکومت اپنی دوسری میعاد کا پہلا بجٹ یکم ؍ فروری کو پیش کرے گی۔ اس سے پہلے ہی برطانوی جریدے ’’دی اکنامسٹ‘‘ نے اپنی کوراسٹوری میں یہ کہہ دیا ہیکہ ہندوستان میں نریندر مودی کی وجہ سے خونی تشدد کا خطرہ لاحق ہے۔ سرورق پر یہ بھی لکھا گیا ہیکہ نریندر مودی کس طرح دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان کو خطرہ میں ڈال رہے ہیں۔ یہ تو ملک کے حالات کی بات رہی اب بجٹ کے بارے میں آپ کو بتاتے ہیں اس بجٹ کے تعلق سے عوام کاروباری حضرات و صنعتکاروں میں کئی ایک امیدیں پائی جاتی ہیں اور اس ضمن میں قیاس آرائیاں بھی کی جارہی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہا جارہا ہیکہ آمدنی میں اضافہ کیلئے مودی حکومت بہت پریشان ہیں اور ایسے میں وہ راست ٹیکس معافی اسکیم (DTAS) متعارف کرواسکتی ہے۔ گذشتہ سال مودی حکومت نے ’’سب کا وشواس‘‘ اسکیم کا اعلان کیا تھا اور یہ اسکیم بالراست محاصل کیلئے متعارف کروائی گئی تھی جس کے ذریعہ حکومت نے 35000 کروڑ روپئے سے زائد کی رقم جمع کی لیکن رواں مالی سال راست ٹیکس کلکشن شدید گراوٹ کا سامنا کررہا ہے۔ ای فنڈس کے بعد 15 ڈسمبر 2019ء تک اس میں صرف 0.7 فیصد شرح نمو دیکھی گئی حالانکہ بجٹ میں 17.3 فیصد شرح نمو کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ تیسری قسط کے بعد پیشگی ٹیکس کلکشن 2.51 کھرب روپئے رہا اس سے پہلے کے سال میں یہ کلکشن 2.47 کھرب روپئے تھا۔