بجٹ 2023-24ءعوام کو مزید مہنگائی کیلئے تیار رہنا ہوگا

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

گزشتہ ہفتہ بجٹ سے متعلق بات چیت سے بھرا رہا۔ عام ،خاص سب کے سب بجٹ کے بارے میں بات کررہے تھے اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بجٹ پیش بھی کردیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ بجٹ مرکز کی تخمینہ وصولیوں اور مصارف کے سالانہ بیان سے بھی کچھ زیادہ بن گیا ہے یعنی بجٹ صرف بجٹ ہی نہیں رہا بلکہ یہ حکومت کی پالیسیوں اور پروگرامس سے نہ صرف واقف کروانے بلکہ انہیں ان پالیسیوں اور پروگرامس کے اثرات سے واقف کروانے کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔ ویسے بھی اب یہ حال ہوگیا ہے کہ لوگ بجٹ کو مخصوص تجاویز کے ساتھ ساتھ اشاروں کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔
ہماری وزیر فینانس نے بڑے ہی طمطراق سے بجٹ برائے مالی 2023-24ء تو پیش کردیا لیکن اس میں غریبوں اور کمزوروں کیلئے کچھ نہیں، بے آواز، بے آواز ہی رہے۔ انہیں حکومت میں شامل فیصلہ سازوں تک کسی قسم کی رسائی ہی نہیں ہے اور وہ ایک پل کی طرح کام کرنے سیاسی جماعتوں اور ارکان پارلیمنٹ پر انحصار کرتے ہیں (عوام، ارکان پارلیمنٹ کو حکومت اور اپنے درمیان ایک پل تصور کرتے ہیں) لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ لوک سبھا میں زبردست اکثریت کی حامل ایک حکومت عام طور پر کسی کی نہیں سنتی ، سیاسی جماعتوں اور ارکان پارلیمنٹ کو خاطر میں نہیں لاتی اور ان سے کسی قسم کا صلاح و مشورہ بھی کرنے سے گریز کرتی ہے۔
سی ای اے نے سیاق و سباق کا کیا انکشاف
عوام اور ماہرین اقتصادیات معاشی سروے Economic Survey کا جائزہ لیتے ہیں جو بجٹ کے موقع پر منظر عام پر لایا جاتا ہے جس کا مقصد ملک کی معاشی صورتحال کے بارے میں تازہ جانکاری حاصل کرنا ہوتا ہے ، حسب معمول باب I میں معاشی سروے برائے سال 2023-24ء آؤٹ لک برائے آئندہ سال پر مشتمل ہے۔ رواں سال ہمارے ملک کے اعلیٰ اقتصادی مشیر نے بناء کسی سمت کا تعین کئے،2023-24ء کے آؤٹ لک کا خلاصہ صرف دو پیراگرافس میں پیش کردیا جسے میں نے ذیل میں دوبارہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ عوام کو حکومت کی معاشی پالیسی کے بارے میں اچھی طرح جاننے کا موقع ملا۔
1.30 ایسے وقت جبکہ ہندوستان کا آؤٹ لک نتیجہ روشن ہے، آئندہ مالی سال کیلئے عالمی معیشت کے امکانات کو چیلنج کے منفرد و انوکھے سیٹ کے امتزاج سے کم کردیا گیا جن سے معیشت کے زوال پذیر ہونے کے خطرات پائے جاتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو کئی دہوں سے جاری بے تحاشہ مہنگائی نے عالمی سطح پر مرکزی بینکوں کو معاشی شرائط و لوازمات سخت کرنے پر مجبور کردیا ہے چنانچہ سخت مالی شرائط باالفاظ دیگر معاشی سختیوں کا اثر سست معاشی سرگرمی کی شکل میں ظاہر ہونا شروع ہوا ہے۔ خاص طور پر ترقی یافتہ معیشتوں یا ملکوں میں ایسا دیکھا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ سپلائی چین ، جغرافیائی و سیاسی تنازعات (جنگ و جدال) نے بھی غیریقینی معاشی صورتحال پیدا کردی ہے اور اسی قسم کے رجحان سے Global Outlook مزید ابتر ہوگیا، یہی وجہ ہے کہ ماہرین اقتصادیات نے پیش قیاسی کی ہے کہ سال 2002ء میں عالمی نمو جو 3.2% تھا، وہ مالی سال 2023ء میں گھٹ کر 2.7 ہوجائے گا۔ اس بارے میں عالمی مالیاتی ادارے IMF نے بھی اسی قسم کی پیش قیاسی کی ہے۔ واضح رہے کہ ماہرین اور عالمی معاشی اداروں نے یہ بھی پیش قیاسی کی تھی کہ اکٹوبر 2022ء میں اکنامک آؤٹ پٹ کے سست نمو کے ساتھ غیریقینی تجارتی نمو کو بھی متاثر کرے گا اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) نے بھی اس قسم کی پیش قیاسی جس میں بتایا گیا کہ عالمی تجارتی نمو جو 2022ء میں 3.5% تھا۔ گھٹ کر 2023ء میں 1.0% ہوجائے گا۔ اگر CEA یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اپنا کام کردیا ہے تو وہ غلط ہے، اسے ہندوستانی تناظر میں بڑی جانفشانی کے ساتھ جائزہ لینا چاہئے اور حفظ ماتقدم یا غلطی سدھارنے کیلئے حکومت کے سامنے امکانات پیش کرنا چاہئے۔ اگر دیکھا جائے تو CEA اور وزیر فینانس دونوں ناکام ہوگئے۔ اس کے نتیجہ میں وزیر فینانس کی بجٹ تقریر کا اس تناظر سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا جس میں بجٹ پیش کیا گیا۔ اگر ہم نرملا سیتا رامن کی بجٹ تقریر کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی 90 منٹ کا خطاب تاریکی میں ایک لمبی سیٹی بجانے کے مترادف ہے۔
تین مشکوک جھلکیاں
بجٹ برائے سال 2023-24ء میں تین چیزیں نمایاں ہیں۔ پہلی چیز یہ کہ مالی سال 2022-23ء سرمایہ مصارف کیلئے مختص کردہ رقم پوری طرح خرچ کرنے میں حکومت ناکام رہی۔ اس کے بعد وزیر فینانس نے بجٹ برائے سال 2023-24ء میں سرمایہ مصارف کے تخمینوں کو 33% سے اوپر کردیا۔ دوسری نمایاں چیز کے بارے میں آپ کو بتادیں کہ سماجی بہبود پر مصارف میں ظالمانہ کٹوتیوں کے بعد وزیر فینانس نے ملک کی غریب آبادی کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ حکومت کے سامنے غریبوں کی فلاح و بہبود سب سے اہم ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ حکومت کو غریبوں کی کتنی فکر ہے، اس کا اندازہ ملک میں بڑھتی مہنگائی سے ہوتا ہے، اگر مہنگائی سے کوئی سب سے زیادہ پریشان اور متاثر ہے تو وہ غریب اور متوسط طبقہ ہی متاثر ہے۔ بجٹ کی تیسری نمایاں اور مشکوک چیز یہ رہی کہ حکومت لوگوں کو جدید ٹیکس نظام (عدم استثنیٰ) New Tax Regime کی طرف لانے کی ترغیب دینے میں ناکامی کے بعد یہ کہا ہے کہ کس طرح NTR متوسط طبقہ کیلئے ایک نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوگا۔ آپ کو بتادیں کہ NTR سال 2020ء میں متعارف کروایا گیا تھا، لیکن ایک بات ضرور ہے کہ بجٹ متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے ٹیکس دہندگان کے حق میں نہیں ہے۔ مذکورہ تینوں نمایاں نکات میں سے کسی بھی نکتہ کی کوئی بھی قریب سے جانچ پڑتال نہیں کرے گا۔ ہاں ایک اور بات وزیر فینانس نے بڑی ہی خاموشی کے ساتھ اعتراف کیا ہے کہ ترقی کے دوسرے تین انجن پھٹ رہے ہیں، برآمدات میں کمی آئی ہے۔ نجی سرمایہ کاری سست روی کا شکار ہے حالانکہ وزیر فینانس نے صنعت کاروں کو بار بار اس جانب توجہ دلائی۔ دوسری طرف کھپت یا استعمال جمود کا شکار ہے اور وہ ’’اوندھے منہ‘‘ گرسکتی ہے۔ وزیر فینانس کے پاس سرکاری سرمایہ مصارف بڑھانے کے سواء کوئی اور چارہ کار نہیں تھا۔ مالی سال 2022-23ء میں 7,50,246 کروڑ روپئے BE کے مقابل RE کم ہوکر 7,28,274 کروڑ روپئے رہ جائے گا جس سے حکومت کے پراجیکٹس کے نفاذ ، ان پر عمل آوری میں موجود نقائص کا پردہ فاش ہوجائے گا۔ وزارتوں (ریلویز اور روڈ س) کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور انجذاب کی صلاحیتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے وزیر فینانس نے 10,00961 کروڑ روپئے مختص کئے ۔ یہاں تک کہ اس پر سرمایہ مصارف کے حامی بھی متفکر ہیں۔ 2022-25ء میں زرعی، تعلیمی، صحت، سماجی بہبود ، شہری ترقیات سے متعلق اسکیوں پر مصارف میں اضافہ کا وعدہ کیا گیا لیکن اس وعدہ کو وفا نہیں کیا گیا۔ فرٹیلائزر (کھاد) اور غذا پر آئندہ سال کیلئے بجٹ میں 1,40,000 کروڑ روپیوں تک کٹوتی کی گئی۔ اسی طرح MGNREGA کیلئے مختص رقم میں 29,400 کروڑ روپئے کی کٹوتی کی گئی۔ ہاں صرف جو کچھ بچا ہے، وہ سکون افزاء الفاظ ہیں۔ بہرحال اس بجٹ سے ایک چیز واضح ہوگئی کہ حکومت پرسنل انکم ٹیکس سے ہر قسم کے استثنیٰ کو منسوخ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ خیر! ایک غیریقینی مالی سال اور صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہئے۔