بحیرئہ اسود کے تنازعہ پر برطانیہ روس کشیدگی ، جنگ کی دھمکیاں

   

لندن ۔ بحیرئہ اسود میں برطانوی اور روسی بحریہ کے ایمنے سامنے اینے کے بعد خطے میں جنگ کے خطرات منڈلانے لگے۔ خبررساں اداروں کے مطابق روس اور برطانیہ نے بحیرہ اسود میں پیش اینے والے واقعہ کے بعد ایک دوسرے پر غلط بیانی کے الزامات کی بوچھاڑ کردی ہے۔ اس سے قبل ماسکو نے برطانوی بحری بیڑے پر فائرنگ کرنے کا دعویٰ کیاتھا۔ لندن نے روس کے الزام کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کردیا اور کہا کہ برطانیہ کریمیا پر روس کے قبضے کو تسلیم نہیں کرتا۔ برطانوی جہاز ایچ ایم ایس ڈیفنڈر جس سمندری حدود سے گزرا وہ یوکرائن کا حصہ ہے۔خبررساں اداروں کے مطابق روسی سمندر میں داخل ہونے کی کوشش پر برطانوی جہاز مشکل میں پھنس گیاہے۔ اس سے قبل روسی فورسز نے انتباہی بم برسا کر برطانوی جہاز کو بھاگنے پر مجبور کردیاتھا۔روسی حکام نے برطانیہ سمیت تمام ممالک کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو ملک بھی روسی سمندری حدود کی خلاف ورزی کرے گا، اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ روس کے نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ روس کی سلامتی ہماری اولین ترجیح ہے۔ اگر کوئی ملک عالمی قوانین کی پاسداری نہیں کرتا اور روس کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو روس اپنی افواج کو سرحدوں کے دفاع کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ ادھر ہتھیاروں کے کنٹرول پر ویانا مذاکرات کے روسی سفیر کونسٹنٹن گیوریلووف نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ اگر برطانیہ نے بحیرہ اسود میں دوبارہ تجربہ کیا تو اس کے جہاز کو بم سے اڑادیا جائے گا۔ دوسری جانب برطانوی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ روس اس معاملے پر اب تک سراسر غلط بیانی کررہا ہے اور یہ سلسلہ اب بندہونا چاہیے۔ جنگی جہاز نے یوکرائن کی سمندر حدود استعمال کی تھیں اور روسی جنگی کشتیوںنے گھیرا ڈال کر جہاز کے عملے کو ہراساں کرنے کی کوشش کی،جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔