’’بخار کو روکنے کیلئے ضروری ہے نزلہ و زکام روکو‘‘

   

کیونکہ انسان آج تک ایسا کچرادان نہیں بنا سکا
جس میں نفرتیں ،عداوتیں ، تعصب اور جہالت پھینک سکے

سید جلیل ازہر

آج سارے ملک میں تعلیم کا تناسب دیکھا جائے تو لڑکوں پر لڑکیوں کو سبقت حاصل ہے۔ مسلم لڑکیاں بہت تیزی سے تعلیمی میدان میں اپنے اپنے علاقوں اور خاندانوں کا نام روشن کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ متعصب ذہنیت کے حامل افراد کو یہ بات ہضم نہیں ہورہی ہے جس کے سبب حجاب کے مسئلہ کو کرناٹک کے کالج سے شروع کیا گیا جسے سارے ملک میں پھیلانے کی بھی منظم سازش رچی گئی۔ کرناٹک میں مسکان خان کو حجاب پہن کر آنے کی وجہ سے جس انداز سے رکاوٹ کھڑی کی گئی، اس پر ملک ہی نہیں بیرون ملک اور صرف مسلم برادری ہی نہیں بلکہ سکیولر ہندو طبقے نے بھی اس واقعہ پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ مسکان خاں نے جس دلیری سے نوجوانوں کے آگے ہمت کا مظاہرہ کیا، اس کو تاریخ یاد رکھے گی۔ حقیقت ہے کہ مزاج میں تھوڑی سختی لازمی ہے۔
لوگ پی جاتے سمندر اگر کھارا نہ ہوتا
مسکان کے حوصلے نے لڑکیوں میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا کردیا۔ یہی سبب ہے کہ اس واقعہ کے بعد حجاب کے مسئلہ پر امتحان کو ٹھکرا دیا گیا۔ ایک ٹیچر نے تو ملازمت سے استعفیٰ دے دیا لیکن حجاب کی آبرو پر آنچ آنے نہیں دی کیونکہ مسلم لڑکیوں اور لڑکوں پر ظلم کیا جارہا ہے اور مسلم قوم پر شک کیا جارہا ہے جبکہ مسلمانوں کی ایک شاندار تاریخ ہے بقول شاعر:
مذہب کے نام پر ظلم و ستم ہم نہیں کرتے
وفا کی آڑ میں سیاست ہم نہیں کرتے
زمین کے اندر بھی جاتے ہیں تو غسل کرکے
وطن کی مٹی کو ناپاک ہم نہیں کرتے
آج کچھ لوگ سارے ملک میں نفرت کے ماحول اور متعصب ذہنیت کو پھیلا رہے ہیں۔ مندر۔ مسجد تو کبھی گائے کے مسئلہ پر ملک میں ہر طرف نفرت کو ہوا دی جارہی ہے۔ منظم سازشوں کے ذریعہ صرف فرقہ پرستوں کی متعصب ذہنیت کو پھیلایا جارہا ہے۔ حجاب کو لے کر ایک نیا خوف پیدا کردیا گیا ہے۔ لڑکیوں نے بھی حجاب کے مسئلہ پر اپنے ردعمل کا جو اظہار کیا ہے، اس کی بہادری اور ہمت کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے کیونکہ آج ہر علاقہ میں حجاب پر ہی تبصرہ ہورہا ہے۔ بہت ضروری ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام اور گنگا جمنی تہذیب کو پروان چڑھانے کیلئے سکیولر ذہن کے افراد کو میدان میں آتے ہوئے دستور کا تحفظ کرنا چاہئے کیونکہ ’’بخار کو روکنے کیلئے ضروری ہے نزلہ و زکام روکو‘‘، اس لئے کہ انسان آج تک ایسا کوڑے دان نہیں بنا سکا جس میں نفرتیں، عداوتیں، تعصب اور جہالت پھینک سکے۔
یاد رکھئے! تنگدستی، غریبی و مفلسی کا قتل کرنے والی ایک ہی تلوار ہے اور وہ ہے ’’تعلیم‘‘۔ حجاب کے مسئلہ پر نئی نسل کی لڑکیوں کو تعلیم سے روکنے کی ناپاک کوشش کے خاتمہ کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے جمہوری حق کیلئے مرکزی حکومت پر دباؤ ڈالیں کیونکہ اگر اس عمل کو کرناٹک میں نہیں روکا گیا تو یہ بیماری ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی پھیل سکتی ہے، کیونکہ کوئی بھی مذہب ایک دوسرے کے جذبات کا احترام اور قدر کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔ جہاں لوگ ایک دوسرے کے جذبات کا پاس و لحاظ نہیں رکھتے ، وہاں احترام و عزت ، علم و کردار، اخلاق و انسانیت نہیں پیدا ہوسکتی۔ مشکل دستک دے تو خوف زدہ نہ ہوں، آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیں کیونکہ کامیابی ہمیشہ مشکل کا بھیس بدل کر آتی ہے۔ آج فرقہ پرست جماعتیں اترپردیش اسمبلی انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے نئے نئے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہیں، وہ نفرت کا بیج بونے کی ناکام کوشش کررہے ہیں کیونکہ یوپی کی سیاسی زمین کا سچ کیا ہے، اس کا اندازہ سب کو ہوچکا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ یوپی کے نتائج ہی دہلی کے اقتدار کے ضامن ہوتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ آئے دن بے لگام تقاریر کے ذریعہ اقلیتوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ جبکہ مسکان خان کا واقعہ ملک کے ہر اخبار کی سرخی بنا ہوا ہے۔ ایسے ماحول میں ایک سکھ امرت دھاری لڑکی کو مشہور ماؤنٹ کامل پی یو کالج میں اپنی پگڑی اتارنے کو کہا گیا۔ بی جے پی زیرقیادت مرکز کی این ڈی اے حکومت کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اقتدار کسی کا بھی دائمی نہیں بلکہ عارضی ہوتا ہے اس نے بڑے بڑے حکمرانوں کے دن پلٹ دیئے۔
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دِیے میں جان ہوگی وہ دِیا رہ جائے گا