پروفیسر اپوروانند
آج کل بی جے پی رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوڑی کے کافی چرچے ہیں، ہر طرف ان کا ذکر چھڑا ہوا ہے اور اس کی وجہ بی ایس پی کے ایک مسلم رکن پارلیمنٹ کنو دانش علی کے خلاف ان کی بدزبانی اور بد تہذیبی فحش گوئی اور دیگر گالی گلوج ہے۔ رمیش بدھوڑی نے پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں گالی گلوج یا فحش کلامی کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ وہ بی جے پی لیڈر کہلانے کے بالکل اہل ہیں۔ ویسے بھی بی جے پی کی تہذیب بدگوئی بدزبانی اور بدتمیزی کی تہذیب ہے اور اس کے لیڈروں کو چاہے وہ رمیش بدھوڑی ہو یا کوئی اور انہیں اپنے مخالفین اور مسلمانوں کی تذلیل کر کے یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ بی جے پی لیڈر کہلانے کے مستحق ہیں، اس کے اہل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بدزبانی کے معاملہ میں ملک کی بلکہ دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونے کا دعویٰ کرنے والی بی جے پی کے قائدین میں زبردست مسابقت جاری ہے ۔ اس سلسلہ میں آپ کو گوئیلز اور ہٹلر کے زرین اقوال سے واقف کرواتا ہوں ۔ گوئلز کا کہنا تھا کہ اگر تمہیں سڑک کے لوگوں کا لیڈر بننا ہو تو ان کی زبان یعنی سڑک چھاپ زبان میں بات کرنی ہوگی۔ اسی طرح ہٹلر نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ کسی سیاستداں کی تقریر کی اہمیت کا پتہ کسی پروفیسر پر مرتب ہونے والے اثرات سے نہیں بلکہ سڑک پر چلنے والے لوگوں پر ہونے والے اثرات سے لگایا جاسکتا ہے ۔ پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس 18 تا 22 ستمبر منعقد ہوا۔ 5 دن میں سے چار دن اجلاس کا انعقاد پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں کیا گیا اور اجلاس کا اختتام بی جے پی رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوڑی کی گالی گلوج سے ہوا جو انہوں نے بی ایس پی رکن پارلیمنٹ کو دی ۔ انہوںنے جس طرح دانش علی کے خلاف گندی زبان استعمال کی ، اس کا ویڈیو جنگل کی آگ کی طرح وائرل ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک و بیرون ملک اسے لوگوں نے دیکھا ۔ شریف النفس لوگوں کو بی جے پی کے گالی باز رکن پارلیمنٹ کا ویڈیو دیکھ کر حیرت کے ساتھ صدمہ بھی ہوا لیکن یہ تو ہونا ہی تھا ۔ ہم نے 2014 ء میں (بی جے پی کے اقتدار کے ساتھ ہی) جو سفر شروع کیا تھا اس کو اس مقام تک پہنچنا تھا ۔ ہم تمام کو یہ سب سننا اور دیکھنا تھا ۔ اپنی حکومت ، اپنے لیڈروں کی حقیقی مسلم دشمنی کی بدنما تصویر کو بار بار دیکھنی چاہئے ۔ جہاں تک وزیراعظم نریندر مودی کی خاموشی کا سوال ہے ، اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے ۔ اپنے مطلب کے ہر ایونٹ کے بارے میں چاہے وہ اہم ہو یا غیر اہم ٹوئیٹ کرنا نہیں بھولتے ۔ اگر آئندہ وہ اپنی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ کی مسلم مخالف وشنام طرازی کے بعد بالکل خاموش ہیں۔ اس میں بھی کوئی تعجب و حیرانی کی بات نہیں کہ بات بات پر اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ کو معطل کرنے والے لوک سبھا اسپیکر نے گالی باز رکن پارلیمنٹ کو وارننگ دیتے ہوئے چھوڑ دیا کہ اگر آئندہ وہ ایسی حرکت کریں گے ، ایوان میں گالی گلوج کریں گے تو پھر ان کے خلاف سخت کارروائی ہوگی ۔ اگر دیکھا جائے تو وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی ایک منظم انداز میں مسلمانوں کے خلاف گالی گلوج دروغ گوئی اور پروپگنڈہ کے کلچر کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔ اس میں بھی کوئی تعجب کی بات نہیں کہ مسلمانوں کے گھروں میں لقمہ توڑ چکے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اور سابق مرکزی وزیر ہرش وردھن کے ساتھ ایک اور سابق وزیر روی شنکر پرساد مسلمانوں کے خلاف اپنے ساتھی رکن پارلیمنٹ کی مغلظات سے حاصل ہونے والا لطف اور مزہ چھپانے میں ناکام رہے اور ان کی خوشیاں ان کے چہروں پر آنے والی مسکراہٹ سے عیاں ہوگئی ۔ ایک بات ضرور ہوگئی کہ بدھووڑی کی زبان سے جو نکلا وہ ان کے اور بی جے پی رہنماؤں کے دلوں میں جانے کب سے دفن ہے ، ورنہ وہ بی جے پی میں نہ ہوتے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ سال 2002 ء کے گجرات میں مسلم کش فسادات کی قیادت کیلئے بدنام زمانہ مودی جی کو ملک کے سرفہرست صنعتکاروں اور دانشوروں نے ملک کی امید کے طور پر پیش کیا اور اپنے کندھوں پر بٹھاکر پارلیمنٹ اور اقتدار تک پہنچایا ۔ نریندر مودی نے تشددا ور اپنی یاوہ گوئی پر کبھی پردہ نہیں ڈالا ہے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں جیسی اقلیتوں کے تئیں اپنی نفرت کو بھی نہیں چھپایا ہے ۔ بار بار یہ بھی بتایا گیا کہ مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کا مطلب ہندوؤں کی حق تلفی ہے ۔ آپ کو یاد دلادیں کہ ہم پانچ ہمارے 25 اور گجرات قتل عام سے بے گھر ہوئے مسلمانوں کے راحتی و امدادی کیمپوں کو دہشت گرد پیدا کرنے کی فیکٹریاں قرار دے کر مودی نے واضح کردیا تھا کہ میں تو یہی ہوں ! میں تو ایسا ہی ہوں! اسی حالت میں مجھے تمہیں اپنا لیڈر منتخب کرنا پڑے گا ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گالیاں ، نفرت و تشدد کے لفظی اظہار ہیں۔ ہمارے دلت بھائی اس امر کو بخوبی جانتے ہیں ۔ گالیاں بکنے والا اچھی طرح جانتا ہے کہ جس شخص کو گالی دی جارہی ہے ، وہ گالیوں کا جواب نہیں دے سکتا ۔ گالی دراصل مخالف کو بار بار نیچا دکھانے ، اُسے اس کی حیثیت یاد دلانے اور اسے کمتر ثابت کرنے کا ایک موثر ہتھیار ہے جس کا استعمال سڑکوں ، اسکولوں ، بازا روں ہر جگہ مسلمانوں کے ساتھ کیا جاتا رہا۔ عصری ٹکنالوجی سے واقف مسلم دشمن عناصر مسلمانوں کو گالی دینے کیلئے سوشیل میڈیا کے تمام ذرائع اور وسائل استعمال میں لاتے ہیں ، یہ جانتے ہیں کہ مسلمان جواب میں گالی نہیں دے سکتے۔ دلتوں کو گالی دینے والے اعلیٰ ذات والے بھی جانتے ہیں کہ دلت ان کی گالیوں کا کوئی جواب نہیں دے سکتے ، ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑسکتے ۔ بی جے پی بدزبانی اور بدتمیزی کی تہذیب کی نمائندگی کرتی ہے اور یہ اس بات سے بھی ظاہر ہے کہ دوسری جماعتوں سے اس میں شامل ہونے والے لیڈر گالی گلوچ میں ان سے مقابلہ کرنے لگتے ہیں کیونکہ اس کے ذریعہ انہیں ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ بی جے پی لیڈر کہلانے کے اہل ہیں ۔ چیف منسٹر آسام ہنمنتا بسوا سرما اس کی بہترین مثال ہے ۔ سارا ملک جانتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت و تشدد کو فروغ دینے میں مودی سے مقابلہ کر رہے ہیں اور انہیں اس میں مزہ بھی آرہا ہے ۔ فی الوقت ہندوؤں کیلئے آزمائش کا وقت ہے اگر وہ اس مہذب دنیا کے شہری کی حیثیت سے جگہ چاہتے ہیں تو یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ وہ گالی بازوں اور گالی باز قوم پرستی کو ووٹ دیں۔ انہیں تو اس طرح کے عناصر کو مسترد کرنا ہوگا ۔ ایسا کرتے ہوئے ہی وہ ملک کی حقیقی طور پر خدمت کرسکتے ہیں۔