محمد مصطفی علی سروری
فروری کا مہینہ آتے ہی پورے ملک میں بجٹ پر گفتگو شروع ہوجاتی ہے۔ اس مرتبہ بھی یکم ؍ فروری کو مرکزی حکومت کا بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔ سال بھر کے دوران مرکزی حکومت کہاں سے آمدنی حاصل کرے گی اور کہاں خرچ کرے گی اس کی ساری تفصیلات بجٹ میں درج ہوتی ہیں۔
گذشتہ برس کویڈ – 19 کے منفی اثرات سے ابھی تک حکومت او رعوام باہر نہیں نکل سکے ہیں۔ اس کے باوجود اگر صرف ریاست تلنگانہ سے جمع کیے جانے والے جی ایس ٹی (GST) ٹیکس پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ دسمبر 2019ء تک ریاست تلنگانہ نے GST ٹیکس کی شکل میں 35,315 کروڑ وصول کیے ہیں۔ حالانکہ ایک برس پہلے سال 2018ء دسمبر کے دوران ٹیکس وصولی 33,947 کروڑ تھی۔ اس طرح ایک سال کے مقابلے صرف دسمبر کے دوران GST ٹیکس کی وصولی میں چار فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
قارئین آج کے کالم کا موضوع بجٹ اور اس کے اعداد و شمار نہیں ہے بلکہ اس بدلتی ہوئی صورت حال کے متعلق عوامی آگاہی میں اضافہ کرنا ہے جس میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ریاست تلنگانہ اب ایک ایسی ریاست ہے جہاں پر روزگار اور کاروبار کے مواقع پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ ضررورت اس بات کی ہے کہ مسلم نوجوانوں میں شعور بیداری کا کام کیا جائے کہ وہ بیرون ملک ملازمت اور روزگار کے متعلق اپنی فکر اور توجہ میں تبدیلی لائیں۔ اگر میں صرف شہر حیدرآباد کی مثال بھی دوں تو یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ اب زندگی کے ہر شعبہ حیات میں شہر اپنی نئی پہچان بنارہا ہے اور اس شہر میں صرف ترکاریوں کی منڈی میں نکلنے والے کچرے سے 500 یونٹ برقی تیار کی جارہی ہے۔
31؍ جنوری 2021ء کو وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ریڈیو پروگرام من کی بات میں شہر حیدرآباد کے علاقے بوئن پلی کی بھی بات کی۔ انہوں نے وہاں پر ترکاری کی منڈی میں نکلنے والے کچرے سے برقی کی تیاری کی مثال دی۔ خبر رساں ویب سائٹ (TNM) نے یکم ؍ فروری کو اپنی ایک رپورٹ میں اس حوالے سے لکھا کہ بوئن پلی کے اس برقی پلانٹ میں پوری ریاست سے ترکاری کے کچرے کو لاریوں کے ذریعہ لاجاتا ہے اور پھر ایک سائنسی عمل کے ذریعہ سے اس کچرے سے 500 یونٹ الکٹریسٹی کے علاوہ 30 کیلو بائیو فیول بھی تیار کیا جارہا ہے۔ 10 ٹن ترکاریوں کے کچرے کو بروئے کار لانے کے لیے آہوجہ انجینئرنگ سروس نے باضابطہ طور پر ایک پلانٹ شروع کیا ہے۔ ترکاری کے کچرے سے برقی پیداوار کے پلانٹ کو کارگر بنانے کے لیے ساڑے تین کروڑ کا بجٹ لگایا گیا اور اس پلانٹ کو چلانے کے لیے ماہانہ دیڑھ لاکھ کا خرچہ آرہا ہے۔ جس کے تحت 8 ملازمین کو باضابطہ طور پر پلانٹ پر کام کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ قارئین کچرے سے الکٹریسٹی پیدا کرنے کے لیے اس پراجیکٹ کی کامیابی کا ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ ملک کے وزیر اعظم اپنے ریڈیو پروگرام میں اس کا حوالہ دیتے ہیں۔
آیئے اب میں GHMC کی ایک اور مثال دینا چاہوں گا کہ گذشتہ ماہ جنوری 2021 کے دوران مجلس عظیم تر بلدیہ حیدرآباد کی کونسل کا آخری اجلاس منعقد ہوا جس کے دوران بلدیہ کے بجٹ 2021-22 پر مباحثہ ہوا۔ مجلس بلدیہ کی اسٹانڈنگ کمیٹی نے مالیاتی سال 2021-22ء کے لیے 5600 کروڑ کا تخمینہ بجٹ منظور کیا تھا جس میں سے 1850 کروڑ روپئے تو صرف جائیداد ٹیکس سے حاصل کیا جاتا تھا۔ (بحوالہ 18؍ جنوری 2021ء تلنگانہ ٹوڈے کی رپورٹ)ذرا اندازہ لگایئے اس شہر کے تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کا۔
کووڈ – 19 سے بچائو کے لیے ساری دنیا پریشان ہے اور بچائو کے اقدامات میں مصروف ہے اور شہر حیدرآباد کو اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ بھارت بائیو ٹیک کمپنی 1996ء میں اسی شہر میں قائم کی گئی ہے اور یہ وہی کمپنی ہے جس نے ہندوستان کا سب سے پہلا کورونا کا ویاکسین تیار کیا ہے۔ 13؍ جنوری 2021 کو بھارت بائیوٹیک کمپنی نے حیدرآباد ایئر پورٹ سے پورے ملک کے 11مختلف شہروں کو ویاکسین کی کھیپ پہنچانی شروع کی اور اب کرونا سے تحفظ کی ٹیکہ اندازی کا پروگرام پورے ملک میں چلایا جارہا ہے۔اتنا ہی نہیں برازیل نے بھی بھارت بائیوٹیک کمپنی سے کورونا کی ویاکسین خریدنے کا معاہدہ کرلیا ہے۔کرونا ویاکسین کی ٹیکہ اندازی کا پروگرام کس قدر بڑا ہے اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت ہند نے اپنے سالانہ بجٹ میں جو یکم ؍فروری کو پیش کیا گیا ہے کرونا ویاکسین کے لیے 35 ہزار کروڑ کا بجٹ مختص کیا ہے۔
شہر حیدرآباد بدل رہا ہے۔ اس شہر کی ترقی اور یہاں کے اعلیٰ انفراسٹرکچر کے حوالے سے یہ خبر نوٹ کی جانی چاہیے کہ ایل بی نگر حیدرآباد کے کامنینی دواخانے میں شریک 45 سالہ مریض کو دماغی طور پر مردہ قرار دیا گیا تو اس مریض کے رشتہ داروں نے اس شخص کے جسمانی اعضاء کو ضرورتمند مریضوں کے لیے عطیہ دینے پر رضا مندی ظاہر کی جہاں ایل بی نگر میں انسانی اعضاء کا عطیہ دینے والا موجود تھا تو دوسری طرف جوبلی ہلز کے اپولو دواخانے میں ایک مریض ایسا بھی تھا جس کا قلب خراب تھا اور اس کو علاج کے لیے ڈاکٹروں نے دل کی پیوند کاری کا مشورہ دیا اور 2؍ فروری کو جب ایل بی نگر میں کامنینی ہاسپٹل سے انسانی قلب جوبلی ہلز کے دواخانے کو لے جانے کا مرحلہ آیا تو حیدرآباد میٹرو ریل نے اپنی ٹرین کی خدمات فراہم کی اور یوں جو کام بظاہر مشکل نظر آرہا تھا کہ انسانی اعضاء کی بذریعہ سڑک منتقلی کے لیے 21 کیلو میٹر گرین کاریڈور فراہم کرنا تھا جو کہ بذریعہ میٹرو ٹرین یہ کام صرف آدھے گھنٹے میں مکمل ہوگیا اور 16 اسٹیشن پر ٹرین بغیر رکے اپنی منزل پر پہنچ گئی۔ قارئین یہ ایسی خبریں جس کے متعلق ہم ذرائع ابلاغ میں پڑھا کرتے تھے کہ امریکہ، یوروپ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں انسانی اعضاء کی پیوند کاری ہوتی ہے اور اس طرح سے ایک دواخانے سے دوسرے دواخانے کو انسانی اعضاء منتقل کرنے ایمبولنس کے طور پر ہیلی کاپٹر استعمال کیا گیا وغیرہ وغیرہ ۔شہر حیدرآباد میں میٹرو ٹرین نے اعضاء کی پیوند کاری کو آسان بنادیا۔ بہت سارے نوجوان اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ سرکاری نوکری ملنا تو دور اس کے حوالے سے سونچنا بھی مشکل ہے لیکن یہاں پر میں اخبار تلنگانہ ٹوڈے کی 2؍ فروری 2021ء کی خبر کی مثال دینا چاہوں گا۔
بتلایا گیا کہ تلنگانہ پبلک سروس کمیشن (TSPSC) نے 2؍ فروری کو پی وی نرسمہا رائو تلنگانہ ویٹرنری یونیورسٹی میں لیاب ٹیکنیشین اور ویٹرنری اسسٹنٹ Lab Assistant and Veterinary Assistant کے پوسٹ کے لیے اہل امیدواروں کی فہرست جاری کردی۔ لیاب ٹیکنیشین کی 9 (جائیدادیں)، پوسٹ تھے۔ جس کے لیے 353 امیدواروں نے درخواست دی تھی اور اس پوسٹ پر تقرر کے لیے منعقدہ امتحان میں 166 امیدواروں نے شرکت کی۔ اسی طرح Veterinary Assistant کی جملہ جائیدادیں (13) تھیں جس کے لیے (857) امیدواروں نے درخواست داخل کی تھی۔اب میرا سوال ہے کہ مسلمانوں میں لیاب ٹیکنیشین کا کورس اور روزگار کے متعلق تھوڑی آگاہی ہے اور وہ بھی یہ ہے کہ لیاب ٹیکنیشین کا کورس کرنے کے بعد بیرون ملک ملازمت حاصل کی جاسکتی ہے۔ لیکن کتنے مسلم نوجوان ایسے ہیں جو لیاب ٹیکنیشین کی اندرون ملک اور وہ بھی سرکاری ملازمتوں کے متعلق جانتے ہیں اور قارئین اس سے بھی اہم سوال یہ کہ Veterinary Assistant کی پوسٹ کیا ہوتی ہے اس کے لیے قابلیت کیا ہے اور اس قابلیت کے حصول کا طریقہ کیا ہے یہ معلومات مسلم سماج اور نوجوانوں میں عام کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ انجینئرنگ کے گریجویٹس تو مسلمانوں کے ہاں بہت سارے مل جاتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ لوگ مناسب روزگار سے محروم ہیں۔ اس حوالے سے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان نوجوانوں کو انجینئرنگ کے علاوہ دیگر کورسز اور تعلیمی ترجیحات کے متعلق آگاہ کیا جائے اور شعور بیداری کا کام کیا جائے۔
دوسری طرف شہر حیدرآباد کا یہ بھی اعزاز نہیں بلکہ المیہ کہوں گا کہ پورے ملک میں سب سے زیادہ پاسپورٹس اس شہر میں جاری کیے جاتے ہیں۔ یہ رجحان ثابت کرتا ہے کہ یہاں پر لوگوں کی اکثریت پاسپورٹ بنواکر بیرون ملک طبع آزمائی پر یقین رکھتی ہے۔ایسے پس منظر میں مسلم ادارے، افراد، انجمنوں اور دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلم ٹیالنٹ کو روزگار، تجارت اور مواقع سے استفادہ کے لیے صحیح رہنمائی کریں اور تلنگانہ کے مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں اجنبی بننے سے روکیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہوجائے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو وطن کی روٹی عافیت والی روٹی کے نظریہ کو سمجھنے والا بنائے اور حلال رزق ہم سب کے لیے آسان فرمائے۔ اور ہمارے نوجوان اور سارے معاشرے کو صحیح سمت میں آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ یارب العالمین۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com