برطانوی عوام پچھتاوے کا شکار کیوں

   

پروین کمال
اقوام عالم کے ذہنوں سے ابھی تک ’’بریگزٹ‘’ کا لفظ نہیں اترا ہوگا یعنی برطانیہ کی علحدگی جو یوروپی یونین سے پانچ سال قبل ہوئی تھی۔ اس کی تفصیلات اخباروں کے صفحوں پر اکثر شائع ہوا کرتی تھیں۔ یہ مسئلہ بڑی کوششوں کے بعد حل ہوا تھا ۔ اس علحدگی کی وجہ عوام کا بے انتہا … جو علحدگی کے تعلق سے تھا ۔ زیادہ تر عوام نے علحدگی کرنے کا منشاء ظاہر کیا اور کم فیصد نے یونین میں رہنے کو ترجیح دی۔ اس وقت کی خاتون وزیراعظم برطانیہ Theresamay نے فیصلہ کن اقدامات کرنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہیں اور انہیں استعفیٰ دینا پڑا ۔ ان کی جگہ پر ’’بورس جانسن ‘‘ وزیراعظم بنے اور انہوں نے بریگزٹ کی مہم آگے بڑھائی اور یوں ڈسمبر 2020 میں یہ مہم ایک معاہدہ کے ساتھ ختم ہوئی اور برطانیہ نے یوروپی یونین کو الوداع کہہ ہی دیا ۔ اس معاہدہ کے تحت اب برطانیہ یوروپی یونین کی سنگل مارکٹ اور کسٹمز یونین کا پابند نہیں رہا تھا اور تجاری سامان پر کوئی نیا ٹیکس یا کوٹا عائد نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہ علحدگی عوام کی مرضی اور منشاء کے عین مطابق کی گئی تھی کیونکہ عوام کی زیادہ تعداد علحدگی کی خواہاں تھی۔ آج کے دور میں عوام کی رائے کو ہی افضل مانا جاتا ہے مگر جو یونین برسوں پہلے تشکیل دی گئی تھی بریگزٹ کی وجہ سے اس کا ڈھانچہ گرا نہیں لیکن کچھ خلاء ضرور پیدا ہوگیا ہے ۔ یونین قائم کرنے میں برطانیہ نے ہمیشہ کلیدی رول ادا کیا ہے ۔ جنگ عظیم کے اختتام کے بعد جب تمام ممالک کی معیشتیں سسک رہی تھیں، اس وقت یہ یونین تشکیل دی گئی تھی تاکہ تمام یوروپی ممالک سے آزادانہ تجارت کی جاسکے ۔ علاوہ اس کے بہت ساری سہولتوں کے در بھی کھلنے کے امکانات تھے جو گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دے سکیں۔ جنگ عظیم کے اختتام کے بعد جن مشکلات سے یوروپ گزرا ہے ، اسے بیان کرتے ہوئے قلم کی طاقت بھی ٹوٹ جاتی ہے ۔ ان سارے مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے یونین قائم کی گئی تھی لیکن ادھر برطانیہ کی علحدگی سے بہت سارے سوال پیدا ہورہے ہیں ۔ یو ںتو بریگزٹ ان تمام کیلئے جو اس کے حق میں تھے ، بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ اب برطانیہ ایک آزاد اور خود مختار ملک بن گیا ہے ۔ ا پنے ملک کے لئے وہ کوئی بھی فیصلہ لے سکتا ہے ۔ ملکی سیاست ، معاشی اقدامات طئے کرسکتا ہے ۔ صنعتی پیداوار بڑھا یا گھٹا سکتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی شاہی حیثیت مجروح ہونے سے بچ سکتی ہے کیونکہ اب کسی کے ساتھ شراکت داری نہیں ہوگی لیکن حیرت اس بات پر ہوئی ہے کہ بریگزٹ ہوئے ابھی پانچ سال پورے نہیں ہوئے اور ملک کے متزلزل ہونے کی اطلاع گشت کر رہی ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق بریگزٹ کے بعد برطانیہ کی معیشت میں بہت سارے جھول آگئے ہیں اور سماجی اور سیاسی سطح پر بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ کاروباری ادارے معاشی بحران سے بچنے کیلئے دوسرے ملکوں میں اپنے کاروبار منتقل کرنا چاہ رہے ہیں اور بہت سارے تجارت پیشہ لوگوں نے یہ قدم اٹھالیا ہے ۔ ادھر صنعتی زوال کے اثرات سے معیشت پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے ۔ کئی افراد اپنا ملک چھوڑ کر دیار غیر کا رخ کر رہے ہیں ۔ ماہرین کے مطابق اس وقت امیگریشن پالیسی میں بھی رد و بدل کرنا ضروری ہے ۔ نوآبادکاروں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے ۔ جن کو کسی نہ کسی طریقے سے امیگریشن حاصل کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور یوں آبادی میں ا ضافہ ہورہا ہے ۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ علحدگی کے بعد ناسازگار حالات سے نبرد آزما ہورہی برطانوی عوام کو اب شدت سے یہ احساس ہورہا ہے کہ ہمیں یہ راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے تھا ۔ وہ اب کھلے عام اعتراف کر رہے ہیں کہ بریگزٹ کے حق میں فیصلہ دے کر ہم نے بہت بڑی غلطی کی ہے ۔ قیاس ہے کہ دوبارہ یوروپی یونین کی رکنیت حاصل کرلیں لیکن اس کے مکانات واضح نہیں ہیں ۔ چند سیاستدانوں کا خیال ہے کہ برطانیہ کے یوروپی یورنین میں شامل ہونے کے آثار تو ہیں لیکن اس میں بہت ساری شرائط لگائی جائے گی ۔ اول تو وہ دوبارہ یوروپی یونین کی کسٹمز یونین میں شامل نہیں ہوگا۔ پیشہ ورانہ قابلیتوں کو مواقع دیئے جائیں گے اور چند شعبوں میں بہتری لانے کیلئے وہ تعاون کرے گا ۔ اس کے جواب میں یوروپی یونین کی طرف سے بھی مثبت رد عمل ہورہا ہے ۔ آئندہ حالات کس موڑ پر جائیں گے ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ غرض اس وقت ملک میں افراتفری پھیلی ہوئی ہے ۔ ملکہ ایلزبتھ کے گزرنے کے بعد سے تو یہ پہلا موقع ہے کہ ملک بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے ۔ ستر سال کے عرصہ تک وہ ملکہ برطانیہ کی حیثیت سے برسر اقتدار رہیں۔ ممکن ہے ان کے دور حکومت میں بھی ملک مسائل کا شکار رہا ہوگا ۔ نشیب و فراز تو ملکوں اور قوموں کا حصہ ہیں لیکن ایسی نزاعی کیفیت نہ ہوئی ہوگی ۔ وہ بے انتہا دور اندیش اور سلجھی ہوئی خاتون تھیں۔ اگرچہ کہ کمسنی (27) برس کی عمر میں تخت نشین ہوئیں مگر ایک تجربہ کار سیاستداں کی طرح انہوں نے ملکی پالیسیوںکو کامیاب بنانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ۔ ان کے رخصت ہونے کے بعد ان کے صاحبزادہ پرنس چارلس جو اس وقت بادشاہ کہلاتے ہیں انہوں نے اپنے آپ کو ملک کے لئے وقف کرنے کا عزم کیا ہے اور برطانیہ کو ایک نئی سمت میں آگے بڑھانے کی جستجو کر رہے ہیں ۔ بادشاہ بننے کے بعد انہیں اپنی ذمہ داریوں کا بخوبی احساس ہوگیا ہے اور شائد ملکی حالات میں کچھ بہتری آئے جس کا انتظار برطانوی قوم بے چینی سے کر رہی ہے ۔ امیدیں کی جارہی ہیں کہ یہ وقت جلد آئے گا ۔