برطانیہ کی علیحدگی ،یوروپی یونین کا نقصان

   

پروین کمال
مسلسل ساڑھے تین سال کی کشمکش کے بعد آخر کار 31 جنوری 2020 کو بریگزٹ (برطانیہ کی یوروپی یونین سے علیحدگی) ہوہی گئی۔ اب وہ یونین سے ایک خارج شدہ ملک ہے۔ یکم جنوری سن (1973) وہ تاریخی دن تھا جب برطانوی حکومت نے بڑے ہی غور و خوص کے بعد یونین میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا اور 9 ویں رکن ملک کی حیثیت سے انٹری لی تھی۔ اور آج مکمل (47) برس گذرنے کے بعد یوں علیحدہ ہوگیا ہے جیسے کبھی یونین میں شامل تھا ہی نہیں۔ جو اسے یوروپ کے لئے یہ ایک انتہائی افسوس ناک لمحہ ہے حالانکہ یونین کے رہنماؤں کی طرف سے اس بات پر بار بار زور دیا جاتا رہا کہ بوطانیہ یوروپ سے علیحدہ ناہو۔ کیونکہ متحدہ یوروپ ہی بڑی طاقتوں کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ جب تک پورا یوروپ متحد نہیں ہوگا، عالمی سطح پر موثر کردار ادا نہیں کرسکتا۔ لیکن بریگزٹ کے حامیوں نے اس بات کو نظرانداز کردیا۔ ان کا خیال ہے کہ یہ اقدام ہمارے ئے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ اور علیحدگی کے بعد ہمارا ملک برطانیہ عالمی سطح پر بڑی طاقت بنکر ابھرے گا۔ اب یہ جو مختلف سے دو نظریئے ہیں ان میں کونسا سچ ثابت ہوگا۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ مگر فی الحال اس فیصلے سے اضطرابی کیفیت دور ہوگئی ہے۔ کیونکہ علیحدگی عمل میں آچکی ہے۔ لیکن اس کی باضابطہ تکمیل جنوری 2021 میں ہوگی۔ تب تک برطانیہ یونین کے ساتھ ہے اور اس کے تمام قوانین پر عمل کرنے کے لئے پابند ہے۔ ایک اور شق یہاں یہ رکھی گئی ہے کہ آئندہ یوروپ کسی بھی ادارے میں برطانیہ کا کوئی رکن نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ برطانوی جھنڈا جو یوروپی پارلیمان کے پاس نصب تھا وہ ہٹادیا گیا ہے۔ اور اس کی جگہ ہر یوروپی یونین کا جھنڈا لگادیا گیا ہے۔ یعنی یہ کہ برطانیہ کی یوروپی یونین سے علیحدگی کا یہ پہلا قدم ہے۔ البتہ ان شہریوں کے لئے سہولت یہ دی گئی ہے کہ جو برطانوی شہری یوروپی ملکوں میں مقیم ہیں یا پھر یوروپی یونین کے شہری جو برطانیہ میں ملازمت یا تعلیم کی بنیاد پر رہ رہے ہیں وہ آئندہ بھی ان ملکوں میں رہ سکتے ہیں۔ ان کے سفر کرنے پر کوئی پابندی نہیں لگائی جائے گی۔ وہ آزادی کے ساتھ رہ سکتے۔ وہ آئندہ بھی ان ملکوں میں رہ سکتے ہیں۔ ان کے سفر کرنے پر کوئی پابندی نہیں لگائی جائے گی۔ وہ آزادی کے ساتھ رہ سکتے اور گھوم پھر سکتے ہیں۔ بریگزٹ کا مسئلہ بحرحال طے ہوگیا ہے۔ اس علیحدگی کا سہرا وزیر اعظم برطانیہ جانسن کے سر جاتا ہے، جنہوں نے برطانیہ کی یوروپی یونین سے علیحدگی کی بھرپور حمایت کی تھی اور وہ اپنی مہم میں کامیاب رہے۔ لیکن اس وقت پورے یوروپ کو اس بات کا شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ ایک طویل المدت یونین جسے قائم ہوئے کم و بیش (62) سال کا عرصہ گذر چکا ہے۔ برطانیہ کے اخراج سے اس میں دراڑ پڑ گئی ہے۔ غرض اس وقت برطانیہ سکڑ کر اپنے جزائر تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ ویسے حکومت برطانیہ ابھی تک اقتصادی طور پر مضبوط ہے کیونکہ وہ تیل زیادہ پیدا کرتا ہے اور دوسری وجہ یہ کہ ’’سیاحت‘‘ اس کی آمدنی بڑھانے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ’’برطانیہ‘‘ جو ماضی میں ایک بہت بڑی سلطنت تھی۔ جسے برطانیہ عظمیٰ کہا جاتا تھا۔ تو وہ یوں ہی نہیں تھا۔ بلکہ اس کی عالمی شہرت اس کی سب سے بڑی وجہ تھی۔ اس کی بحری طاقت بحری بیڑے اس کی عالمی برتری کا باعث تھے۔ لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد جن حالات کا سامنا کرنا پڑا وہ اس کی بربادی کی وجہ تھی اور یوں آہستہ آہستہ برطانیہ عظمیٰ جس کا (48) ممالک جو برطانیہ کی نوآبادیاں تھیں وہ تمام ایک ایک کرکے اس کے ہاتھ سے نکلتی چلی گئیں۔ اس کی آخری نوآبادی ’’ہانگ کانگ‘‘ تھی جو چین کا ایک جزیرہ ہے۔

وہ بھی برطانیہ کے قبضے سے نکل گیا جبکہ یہ جزیرہ گزشتہ (150) برسوں سے برطانیہ کی نوآبادی چلا آرہا تھا۔ اتنا طویل عرصہ گذرنے کے بعد بھی برطانیہ کو وہ جزیرہ چین کے حوالے کرنا پڑا کیونکہ دنیا میں آزادی حاصل کرنے کا شعور بیدار ہوچکا تھا۔ وہ قومیں جو کسی نہ کسی وجہ سے بڑی حکومتوں کے قبضے میں آگئیں تھیں انہوں نے آزادی کے لئے جدوجہد شروع کی۔ ظاہر ہے آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے۔ چنانچہ آزادی کے لئے جدوجہد شروع ہوئی۔ نعرہ بازیاں، ہڑتالیں، تخریب کاریاں اور وہ سب کچھ جو ایسے موقعوں پر ہوا کرتا ہے جس کی گواہ ماضی کی تحریریں ہیں۔ غرض، صدیوں کی عرق ریزی اور جانوں کے نذرانے دینے کے بعد برطانوی حکومت نے اپنے اختیارات ان تمام ملکوں سے ہٹا لئے۔ جہاں ان کی نوآبادیاں قائم تھیں۔ اور یوں وہ تمام ملک آزاد ہو گئے صرف ’’ہانگ کانگ‘‘ بچا رہ گیا جو ان کی آخری نوآبادی تھی۔ لیکن برطانیہ نے 30 جون 1997 کو وہ جزیرہ بھی چین کے حوالے کردیا۔ اس وقت ولی عہد برطانیہ پرنس چارلس اپنی کابینہ کے ہمراہ وہاں پہنچے ہوئے تھے جس وقت وہ چین کی ملکیت ان کے حوالے کررہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں رقصاں اشک صاف دکھائی دے رہے تھے کیونکہ کل تک دنیا پر حکومت کرنے والے جن کی شاہی حکومت میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا چشم فلک نے دیکھا کہ سیاہ و سفید کے مالک وہ آخر قصہ پارینہ بن گئے۔ دنیا ایک آزاد فضا میں سانس لینے لگی۔ اب یہ اور بات ہے کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد خود آپس میں پھوٹ پڑ گئی۔ برطانیہ نے اپنے دور حکومت میں دنیا کے کئی ایک ملکوں میں جہاں اپنی نوآبادیاں قائم کیں۔ انہیں اپنے زیر اثر رکھا۔ وہیں ایک اچھا کام یہ بھی کیا کہ انہیں آگے بڑھایا۔ ترقی دلائی، سب سے خاص کام یہ کیا کہ وہاں تعلیم کے چراغ چلائے۔ تہدیب و تمدن سے آراستہ کیا۔ جدید ایجادات سے روشناس کروایا۔ روز گار کے ذرائع مہیا کئے۔ اونچے پیمانے پر جینے کے قابل بنایا۔ لیکن پارہ طبیعت انسان اندھیرے اور اجالے دونوں ہی سے اکتا جاتا ہے۔ اسی جذبے کے تحت جدوجہد آزادی شروع ہوئی اور کامیاب رہے۔ برطانیہ اپنے خول میں بند ہو کر رہ گیا۔ البتہ یوروپ کے ساتھ اس کے تعلقات تھے لیکن اب بریگزٹ کے بعد کیا ہوگا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ یوروپ سے علیحدگی کے بعد اب اسکاٹ لینڈ کے عوام بھی برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کی بات کررہے ہیں۔ جبکہ تین سو برسوں سے زیادہ عرصے سے اسکاٹ لینڈ برطانیہ کا حصہ رہا ہے۔ ان کی علیحدگی کا سبب یہ ہے کہ وہاں کے پچاس فیصد باشندے یونین سے علیحدگی کے خلاف تھے اور ایسے شہریوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ یہ حالات سنجیدہ رخ کب اختیار کر جائیں گے۔ اس کے علاوہ شمالی آئرلینڈ سے بھی تھوڑا سا خدشہ محض اس بنیاد پر ہے کہ اس کا نصف حصہ یوروپی یونین میں شامل ہے اور دونوں ہی حصوں میں مقیم باشندے یہ چاہتے ہیں کہ پورا آئرلینڈ متحد ہو جائے۔ آگے کیا ہوگا ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ بحرکیف ماضی میں نوآبادیاتی کنٹرول جس کے ہاتھ میں ہوتا تھا وہی دنیا کی عظیم قوت مانا جاتا تھا لیکن آج دنیا کا نظام قاعدے قانون، نظریات سب کچھ بدل چکے ہیں۔ قومیں اب یہ سوچنے لگی ہیں کہ دنیا اسی کی ہے جس کے پاس ٹکنالوجی کی طاقت سب سے زیادہ ہے۔ اس بات کی پیشن گوئیاں وقت کے بناص کرچکے ہیں۔ وہ ٹکنالوجی کا ’’باوا آدم‘‘ کہلاتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ، یوروپ ہو کہ گلف ہر جگہ سستی اور معیاری چیزیں آپ کو مشرق بعید سے ہی درآمدہ ملیں گی۔ امریکہ کا کوئی خلائی سیارہ ایسا نہیں جس کا ایک نازک ترین مخصوص پرزہ جاپان نے تیار نا کیا ہو۔ کہا جاسکتا ہے کہ مشرق بعید کی ٹکنالوجی طاقت بہت اگے ہے۔