برق رفتار ترقی کے دور میں غریبوں کی زندگی تھم گئی

   

مہنگائی اور بے روزگاری نے چولہوں سے آگ چھین لی ہے ، ٹماٹر کی عدد کی شکل میں فروخت لمحہ فکر

نرمل ۔ 3 ۔ اگسٹ ( جلیل ازہر کی رپورٹ ) ریاست ہی نہیں ملک میں مہنگائی نے ایک غریب کی زندگی میں اندھیرا بکھیر دیا ہے ۔ پٹرول سے لیکر پکوان گیاس تک ، بیمار غریب کو دوائیاں خریدنے کی تکالیف بلکہ کن کن چیزوں کو قلمبند کیا جائیگا ۔ آخر آج معمولی ترکاری جو غریب کے گھر میں بریانی کی اہمیت رکھتی ہے ۔ امیروں کے دسترخوان پر سلاد کی شکل میں ہوتی ہے اس ٹماٹر کو بھی خریدنا مشکل ہوگیا ہے ۔ بیماریوں میں مبتلا غریب کا تو یہ حال ہوچکا ہے کہ ان کی سوچ کچھ اس طرح ہوچلی ’’ موت تو بھی جلد آیا کر غریب کے گھر کفن کا پیسہ بھی خرچ ہوتا ہے ، دوائیاں خریدتے خریدتے ‘‘ مہنگائی سے غریب طبقہ جس قدر پریشان ہے اس کی داستان قلمبند کی جائیں تو اخبار کے صفحات کم پڑجائینگے۔ میرے مطالعہ میں ایک کہانی نظر سے گذری کہ ایک ماں اپنے معصوم بچے کو سڑک کے کنارے مار رہی تھی کیونکہ اس نے کاغذ کھالیا سڑک چلنے والوں نے حیرت سے پوچھا کہ کیوں معصوم کو مار رہی ہے ہو تو معصوم روتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھے کافی بھوک لگی تھی اور کاغذ پر روٹی کی تصویر تھی اس لئے میں نے کھالیا ۔ آج بڑی بڑی دعوتوں میں ہم لوگ بچا ہوا کھانا اگر پیاکٹ میں ڈال کر سڑکوں کے کنارے بیٹھے بھوکوں کی کم از کم بھوک مٹاسکتے ہیں تو کتنا بہتر ہوگا ۔ غریب بھوکے معصوم بچوں کو تو ایسا لگتا ہے ؎
فاقوں نے ایک تصویر بنادی آنکھوں میں
گول ہو کوئی چیز تو روٹی لگتی ہے
زندگی تو بستی ہے صاحب گدرانے کے طریقہ مہنگے ہوگئے ہیں ہر صاحب استطاعت کو اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے غریب اور یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ آج مہنگائی اور بے روزگاری نے چولہوں کی آگ چھین لی ہے ۔ انتہائی بھوک پیاس سے غریب بچے کچرہ دانوں میں بھی روٹی ٹٹول کر کھارہے ہیں جبکہ
غریبی کوڑہ کچرہ سے بھی روٹی ڈھونڈلیتی ہے
امیری شوق سے برتن میں جھوٹا چھوڑ دیتی ہے
معمولی ٹماٹر بھی ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدد کی شکل میں فروخت ہورہا ہے یہ المیہ نہیں تو کیا ہے ۔