اسلام آباد: دنیا کے ترقی پذیر ملکوں ے اقتصادی بلاک برکس میں مزید چھ ملکوں کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، تاہم پاکستان کے اس میں شامل نہ ہونے کا معاملہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔برکس کے جنوبی افریقہ میں منعقدہ اجلاس میں ایران، ایتھوپیا، سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور ارجنٹائن کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ایسی خبریں سامنے آئیں کہ پاکستان بھی برکس کی رکنیت حاصل کرنے کا خواہاں ہے جس کے لیے اسے اپنے قریبی اتحادی دوست ملک چین کی حمایت بھی حاصل ہے ۔ دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا ہے کہ پاکستان اس تازہ ترین پیش رفت کا جائزہ لینے کے بعد برکس کے ساتھ مستقبل میں اپنے رابطوں کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان مستقبل میں برکس کا رکن بننے کا خواہاں ہو سکتا ہے۔لیکن بھارت اس کی راہ میں رکاوٹ ہے۔سابق سفارت کار اعزاز چودھری کہتے ہیں کہ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع نہایت اہمیت کا حامل ہے۔لیکن اس وقت پاکستان کو سیاسی اور معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ برکس کا رُکن ملک چین چاہے گا کہ پاکستان برکس میں شامل ہو، لیکن ساتھ ہی چین یہ بھی چاہے گا کہ پاکستان اپنی معیشت پر توجہ دے۔بین الاقوامی اُمور کے ماہر ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ جب تک پاکستان غیر یقینی صورتِ حال اور معاشی چیلنجز سے نہیں نکلتا، اس وقت تک اس کا سفارتی اثرو رسوخ کمزور رہے گا۔ان کے بقول اس وقت عالمی سطح پر ابھرتے ہوئے ان ممالک کا سفارتی اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے جن کی معیشت مضبوط ہے اور ان میں بھارت بھی شامل ہے۔ ان ممالک میں کسی بھی ملک کو ایسے بحران کا سامنا نہیں ہے جس طرح پاکستان کو ہے۔برکس میں چین اور روس کی موجودگی کی وجہ سے یہ تاثر بھی عام ہے کہ یہ گروپ مغرب اور امریکہ کیخلاف ہے۔لیکن اعزاز چودھری اس سے اتفاق نہیں کرتے۔اُن کے بقول برکس کے ممالک مغرب اور امریکہ کے ساتھ قطع تعلق نہیں کر سکتے، لہٰذا اسے مغرب مخالف گروپ نہیں کہا جا سکتا۔