برہمن شناخت کی واپسی کی کوششیں اور کانگریس

   

پروفیسر اپورونند
کانگریس لیڈر جتین پرساد ’’ایک برہمن چیتنا پریشد‘‘ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ وہی ویژن ہے جسے پارٹی برقرار رکھنا چاہتی ہے؟ آیا اس کے سہارے آگے بڑھنے کی خواہاں ہے؟
جتین پرساد کانگریس ورکنگ کمیٹی کے رکن ہیں۔ یہ کمیٹی پارٹی کی اعلیٰ اختیاری فیصلہ ساز کمیٹی ہے۔ برہمن چیتنا پریشد کے بارے میں جتین پرساد کا کہنا ہے کہ یہ تنظیم برہمن سماج میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کام کرے گی اور اس کے ارکان کیلئے انصاف کو یقینی بنائے گی۔ آپ کو بتادوں کہ جتین پرساد کانگریس کے بہت ہی سینئر لیڈر ہیں اور انہوں نے یو پی اے حکومت میں مرکزی وزیر کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دی ہیں۔ انہوں نے برہمن چیتنا پریشد شروع کرنے کا جو اعلان کیا ہے وہ اصل ایک بہت ہی رجعت پسندانہ اور ناگوار یا پریشان کن قدم ہے۔ اس سے ایسا لگ رہا ہے کہ برہمن ذات کی شناخت کے لئے برسرعام تائید و حمایت اور مدد حاصل کی جارہی ہے اور اس حمایت کو جائزہ قرار دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ان کے اس اعلان سے ایسے لگ رہا ہے جیسے کانگریس قائدین کے یہاں اب کوئی نظریات یا آئیڈیاز نہیں رہے۔ یہ اس لئے بھی الجھن سے پر ہے کیونکہ پرینکا گاندھی کی زیر قیادت سیکولر اور غیر جانبدارانہ مسائل کی نشاندہی سے متعلق کئی ایک پرجوش سرگرمیاں جاری ہیں۔ ایسے میں پارٹی کے ایک سینئر لیڈر (جتین پرساد) ذات پات پر مبنی کارروائی کے لئے مرکز اکھاڑا کی کوشش کررہے ہیں۔ آخر کانگریس کس راہ پر جارہی ہے؟
جتین پرساد نے جو اعلان کیا ہے اس کے وقت پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے برہمنوں کے لئے چیتنا پریشد کا ایک ایسے وقت اعلان کیا جب اترپردیش کی پولیس مجرمانہ کردار کے حامل ڈان و کاس دوبے کی تلاش کررہی تھی۔ بعد میں اسے پکڑ کر اس کا انکاؤنٹر کردیا گیا۔ ہم نے سنا ہے کہ وکاس دوبے کی زبردست تعریف و ستائش کرتے ہوئے اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے خلابے ملاکر اسے برہمن شیر قرار دیا جارہا ہے یہ بات ہو رہی تھی کہ وکاس دوبے کو برہمن ہونے کی قیمت چکانی پڑی۔

اس تناظر میں برہمنوں کو شکار بنانے اور اترپردیش جیسی ریاست میں انہیں حاشیہ پر لانے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں، جنہیں الگ سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ جتین پرساد یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ یہ حسن اتفاق ہی ہیکہ دو چیزیں ایک وقت میں ہی ہوئی ہیں۔ آیا انہوں نے جان بوجھ کر برہمن چیتنا پریشد شروع کرنے کا اعلان کیا یا پھر وہ لوگوں کو بیوقوف سمجھتے ہیں۔ برہمنوں کی ایک اور تنظیم کی تخلیق موجودہ بی جے پی حکومت میں برہمن مفادات کے لئے مزید کارآمد ہوگی یہ نہیں کہا جاسکتا۔ اس لئے کہ اس حکومت میں برہمنوں کا سوچنا ہیکہ انہیں چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔
دی پرنٹ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ برہمن چیتنا پریشد شروع کرکے بقول جتین پرساد اس طرح وہ برہمنوں کے ’’چُن قتل‘‘ کا مسئلہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ گزشتہ ماہ اناو کے ایک صحافی کو قتل کیا گیا اور اس کے چند دن بعد برہمن کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کے چار ارکان کو موت کی نیند سلادیا گیا۔ پرساد کے مطابق ان تمام مسئلوں کو اٹھانا ضروری ہے۔

جتین پرساد دراصل صحافی شبھم منی ترپاٹھی کے قتل کا حوالہ دے رہے تھے جنہیں مبینہ طور پر ریت مافیا کی ایماء پر 19 جون کو قتل کیا گیا۔ 3 جولائی کو للن پرساد پانڈے اور ان کے تین ارکان خاندان اپنے مکان میں مردہ پائے گئے ان تمام کا قتل کیا گیا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اب تک ان قتلوں کے پیچھے کارفرما وجوہات کا پتہ نہیں چلایا جاسکا۔اس طرح کے سوالات پر توقع ہیکہ ایک مسکراہٹ نظر آئے گی ویسے بھی اب کانگریس اپنے اعلیٰ ذات کے رائے دہندوں سے محرومی پر افسوس میں مبتلا ہے۔ خاص طور پر کانگریس برہمنوں کی دوری پر فکر مند ہیں اور اس کی سیاسی کامیابیوں میں مسلسل کمی متناسب ہے ہاں ایک اور بات ہے کہ اس ذات (برہمنوں) کو دوبارہ راغب کرنے پارٹی کے پہلے ہی سے حیران قائدین غیر رسمی مشورے دیتے ہیں یا تجاویز پیش کی ہیں۔

یقینا پارٹی قائدین کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ وہ مختلف ذات پات کے گروپوں کے ساتھ جڑے رہیں۔ تمام جماعتیں ایسا کرتی ہیں۔ سماجی انصاف کی سیاست کا عروج جس نے ذات پات کے سوال کو سب سے آگے بڑھایا ہے وہ بھی ذات پات پر مبنی تحریک اور ترغیب کو جائز قرار دینے کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔ یہ سوال کیا جائے کہ اگر دلت اور پسماندہ طبقات کی اپنی تنظیمیں ہوسکتی ہیں تو برہمنوں یا راجپوتوں اور بھومی ہاروں کی تنظیمیں کیوں نہیں ہوسکتی؟ سماجی انصاف کی سیاست قدیم اعلیٰ ذات کے تسلط کے احیاء کے لئے ایک Excuse نہیں ہوسکتی۔جہاں تک روایاتی طبقات کا سوال ہے اس طرح کے طبقات کو منظر عام پر لانے کا یہ بہت ہی آزمایا ہوا فارمولہ ہے۔ اس معاملہ میں اعلیٰ ذات جو ایک نئے شکار یا متاثر کے طور پر سماجی یا سیاسی طرح پر اپنی سرگرمی برقرار رکھے ہوئے تھی۔ تاہم اکثریتی سیاست نے متاثر ہونے کے اس احساس کو آگے بڑھایا ہے۔ نئے سماجی طبقات کے نمودار ہونے کو روایتی اشرافیہ (اعلیٰ ذاتوں)کے حقوق کو غیر منصفانہ طور پر چھپنے جانے کے طور پر دیکھا گیا۔ بی جے پی نے معاشی بنیادوں پر اعلیٰ ذات والوں کو دس فیصد تحفظات قانونی طور پر جائز قرار دیتے ہوئے تحفظات کے منطق کا رخ موڑ دیا۔ جس کے نتیجہ میں اعلیٰ ذات والوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ان اعلیٰ ذات کے لوگوں نے بی جے پی کے اس اقدام کی نہ صرف ستائش کی بلکہ اسے ایک غلطی سدھارنے کی حیثیت سے دیکھا ۔

گزشتہ 6 برسوں میں ہم اعلیٰ ذات کے فخر کے دعوے دیکھ چکے ہیں۔ دلتوں کے سیاسی ورثا کو روایتی تسلط کا سامنا کرنا پڑا۔ برہمنوں نے بڑے پیمانے پر پرشورام جینتی منائی، داستانوں میں جس تشدد کی بات کی گئی تھی اسے نظرانداز کردیاگیا۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ کئی برہمنوں نے فورم کے قیام کے اعلان کا ’’جئے پرشورام‘‘ کے نعروں سے خیرمقدم کیا۔جتین پرساد لوگوں کے اسی حلقہ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اب یہ فیصلہ کرنا کانگریس کا کام ہے کہ وہ ہندوستانیوں کو کس اور کون سے معاشرہ کا ویژن پیش کرنا چاہتی ہے۔ وہ اس نظریہ کے نیچے پناہ نہیں لے سکتی کہ کانگریس ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو تمام لوگوں اور نظریات کی میزبانی کرتی ہے اور ایک ایسی پارٹی ہے جو تمام نظریات کو جگہ دیتی ہے۔