بریکنگ نیوز اور معاشی حالت

   

پی چدمبرم

یہ ایک بریکنگ نیوز ہے لیکن مختلف قسم کی یہ قانون شکنی سے متعلق کوئی بریکنگ نیوز نہیں ہے یا سروں کے یا پھر مکانات کے توڑے جانے سے متعلق خبر نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ وہ بریکنگ نیوز نہیں ہے جو ماضی میں کئی مرتبہ بریکنگ نیوز کی شکل میں منظر عام پر آچکی ہے۔
جب نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو (NCRB) ملک میں بڑھتے پرتشدد جرائم کے بارے میں اعداد و شمار جاری کرتا ہے تو یہ قانون شکنی سے متعلق خبر ہے۔ جب گاؤ رکھشکوں کے گروپس ایک نوجوان جوڑے کو شدید زدوکوب کرتے ہیں یا کسی فرد کو ہجومی تشدد کا نشانہ بناکر اسے زخمی کردیتے یا موت کی نیند سلادیتے ہیں تو یہ سر اور ہڈیوں کے توڑنے کی خبر ہوتی ہے جب سرکاری عہدہ دار مبینہ طور پر تجاویزات (غیر قانونی قبضوں) کو برخواست کرنے کے لئے عمارتوں پر بلڈوزر چلاکر انہیں زمین کے برابر کردیتے ہیں تو وہ گھروں کو توڑنے سے متعلق خبر ہوتی ہے اور جب ہمارے عزت مآب وزیراعظم نے اپوزیشن بالخصوص کانگریس کو ٹکڑے ٹکڑے گینگ یا شہری نکسلس قرار دیا وہ بھی ایک بریکنگ نیوز ہے جو ایک ہی جماہی کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے۔ امیدوں اور دلوں کو توڑنا، وہ تمام اہم بریکنگ نیوز جنہیں آج میں آپ کے ساتھ شیر کروں گا شاید وہ آپ کی امیدوں اور دلوں کے ٹوٹنے کا باعث بنیں گے۔ آپ کو بتادوں کہ مسٹر کے وی کامت ایک مشہور و معروف اور ممتاز بینکر ہیں، انہوں نے آئی سی آئی سی آئی کو ہندوستان کی سرفہرست نجی بینک بنایا۔ اس کے ساتھ ہی انہیں نیو ڈیولپمنٹ بینک (برکس بینک) کے پہلے سربراہ ہونے کا بھی اعزاز حاصل رہا اور فی الوقت مسٹر کامت نیشنل بینک فار فینانسنگ انفرااسٹرکچر اینڈ ڈیولپمنٹ (NaBFID) کے چیرمین ہیں حال ہی میں ایک بک رویو میں انہوں نے اس راہ کا پتہ بتایا جس پر وکشت بھارت (ترقی یافتہ ہندوستان) کا درجہ حاصل کرنے ہندوستان کا گامزن ہونا ضروری ہے۔ ایک معروف اخبار کے لئے تحریر کردہ اپنے مضمون میں مسٹر کامت نے اس کتاب کے مصنف مسٹر کرشنا مورتی سبرامنین کی زبردست ستائش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ مسٹر سبرامنین نے پورے دلائل کے ساتھ اپنے بنیادی موضوع کو پیش کیا۔ کامت نے مصنف سے اس امر پر بھی اتفاق کیا کہ برائے نام جی ڈی پی کی شرح نمو 12.5 فیصد سالانہ (امریکی ڈالرس میں) پر ہر چھ سال میں دوگنا ہونے سے قومی مجموعی پیداوار 2023 میں 3.28 کھرب امریکی ڈالرس سے 2047 میں 55 کھرب امریکی ڈالر تک تقریباً 16 گنا اضافہ ہو جائے گا۔ یہ یقینا قابل عمل ہے میں پورے دل کے ساتھ اس بارے میں اتفاق کرتا ہوں اور اس طرح پائیدار ترقی کے مقصد کی تکمیل کی دلیل دی۔ مسٹر کامت نے مسٹر سبرامنین سوامی کی کتاب کا جو جائزہ لیا ہے اس کے آحری حصہ میں ہی اہم نکات پیش کئے ہیں۔ انہوں نے ان چار ستونوں سے شروعات کی جو ہندوستانی معیشت کو نئی شکل دیں گے۔ اس میں معاشی نمو، سماجی و اقتصادی مشمولیات، نجی شعبہ کی جانب سے اخلاقیات پر مبنی دولت کی تخلیق اور نجی سرمایہ کاری کے ذریعہ مختلف Cycle کو آگے بڑھانا شامل ہیں جس کے تحت 100 اہم عنصر پہلوؤں پر توجہ دینے کا بھی مشورہ دیا گیا۔
معاشی نمو پر ماسکرو۔ اکنامک فوکس; مائیکرو اکنامک نمو پر غیر متزلزل توجہ کے اشارے مالیاتی خسارہ افراط (مہنگائی) اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور قرض ؍ قومی مجموعی پیداوار تناسب کے اعداد و شمار ہیں۔ حکومت کو قومی مجموعی پیداوار کے تین فیصد (سردست 5.6 فیصد) کے ایف ڈی ہدف تک پہنچنے کے لئے بہت طویل سفر طے کرنا باقی ہے۔ جہاں تک افراط زر کا سوال ہے وہ اب بھی 4 فیصد سے زیادہ ہے اور ریزرو بینک آف انڈیا کاریپوریٹ مئی 2022 سے 6.5 فیصد ہے۔ 2023-24 کے اواخر میں CAD اب بھی بڑا (23.2 ارب ڈالرس ہے) لیکن بیرونی ترسیلات یا بیرونی ملکوں سے بھیجے جانے والی رقومات نے کافی مدد کی۔ قرض؍ جی ڈی پی کا تناسب 18.7 فیصد Manageable سطح پر ہے ویسے بھی اس تعلق سے ریکارڈ ملا جلا ہے۔
سماجی اور اقتصادی شمولیت: مودی حکومت کے تحت سب سے بڑا نقصان عدم مساوات، کرونی سرمایہ کاری، سرمایہ دارانہ صنعتوں میں عوامی سرمایہ کاری کارپوریٹ ٹیکس میں کمی، بڑے پیمانہ پر اشیائے ضروریہ پر محاصل، فیول کی اونچی قیمتیں، اقل ترین اجرت، قولدار کسانوں کو نظرانداز کرنا، غریبوں کے استعمال میں رہنے والی خدمات کے معاملہ میں تعصب و جانبداری (مثلاً، وندے بھارت ٹریمیں بمقابلہ ریلوے میں سکنڈ کلاس اور عدم ریزرو کوچیس) اور دیگر پالیسیوں نے سرفہرست ایک فیصد یعنی ٹاپ 1% اور آبادی کی نچلی سطح کے 20 فیصد حصہ کے درمیان عدم مساوات کو بڑھا دیا ہے۔ اس کے علاوہ سماجی شمولیت کو بھی ایک جھٹکہ لگا اور اس کی اہم وجوہات میں سے ایک وجہ منافرت پر مبنی مہمات اور فرقہ وارانہ فسادات ہیں۔ مسٹر کامت نے دوسرے ستون کی کمزور اور غرق ہوئے ستون کی حیثیت سے شناخت کی۔
نجی شعبہ کی جانب سے Ethical WEALTH کی تخلیق : اگر دیکھا جائے تو بینکوں سے جڑے دھوکہ دہی اور صنعتوں کے دیوالیہ ہو جانے کے واقعات میں زبردست اضافہ ہوا۔ دیوالیہ پن اور INSOLVENCY کا ضابطہ بینکوں کی جانب سے قرضوں کی معافی کو قانونی حیثیت دینے اور نام نہاد ناکام کلپنیوں کا کنٹرول حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔ IBC کے تحت Rcovery کی شرح صرف 32 فیصد ہے تاہم دخل اندازی والے ضابطہ، انتہائی سست انداز میں کنٹرول اور ماہرانہ و ظالمانہ ٹیکس مینیجمنٹ نے Ethical کاروباری افراد کے حوصلے پست کئے ہیں۔ نوجوان کاروباری افراد بیرون ملک کاروبار کرنے یا بیرون ملک منتقل ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 4300 ہندوستانی کروڑ پتی ہندوستان کو چھوڑ کر بیرون ملک منتقل ہوگئے۔ (مسٹر روچر شرما ٹائمز آف انڈیا)، مسابقتی کمیشن نے اصل میں مونو پولس اور اولیگوپولس کو حوصلہ افزائی کی۔ اگرچہ حکومت اپیلیں کر رہی ہے۔ مختلف مراعات کا اعلان کر رہی ہے ۔ لالچ اور دھمکایں دے رہی ہے ۔ اس کے باوجود سرکاری سرمایہ کاری کے مقابل نجی سرمایہ کاری بہت پیچھے ہے ۔ اس کی وجہ یہ تباہی کی جارہی ہے کہ کاروباری لوگوں پر حکومت اور حکومت پر کاروباری شعبہ بھروسہ نہیں کرتے۔ ہندوستانی کمپنیاں بیرونی ملک منتقل ہورہی ہیں ۔