بزم عثمانیہ جدہ کی جانب سے عثمانیہ یونیورسٹی کے 100 سال مکمل ہونے پر علمی و ادبی یادگار ساوینر کی رسم اجراء

   

عارف قریشی
ممتاز عثمانین و نامور این آر آئی جناب عارف قریشی صدر بزم عثمانیہ جدہ کی جانب سے ترتیب دیئے گئے ساوینر(ساوینر 2019ء بسلسلہ 100 سالہ عظیم تاریخی تعلیمی خدمات، جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد) کی تقریب رسم اجراء 2 جولائی 2022ء بروز ہفتہ بعد نماز مغرب بمقام اُردو مسکن ہال، خلوت، حیدرآباد میں بدست پروفیسر محمد سلیمان صدیقی سابق وائس چانسلر جامعہ عثمانیہ عمل میں آئی۔ جناب رشید الدین رشید کی قرأت کلام پاک سے تقریب کا آغاز ہوا۔ اطیب اعجاز نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔
عارف قریشی صدر بزم عثمانیہ جدہ نے مہمانوں کا خیرمقدم کیا اور اپنی تقریر میں کہا کہ میں سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ نے مجھے اس (ساوینر 2019ء) کو عملی جامہ پہنانے کے قابل بنایا۔ انہوں نے کہا کہ میں مہمانان خصوصی پروفیسر محمد سلیمان صدیقی سابق وائس چانسلر جامعہ عثمانیہ، جناب نواب نجف علی خاں نبیرہ آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں بہادر، جناب عامر علی خاں نیوز ایڈیٹر روزنامہ سیاست اور مہمانان اعزازی جناب خاں بادشاہ نواز خاں سابق اسپیشل میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ حیدرآباد ؍ سکندرآباد، جناب پروفیسر ایس اے شکور سابق صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ سابق ڈائریکٹر اُردو اکیڈیمی تلنگانہ، مولانا سید محمود بادشاہ قادری زرین کلاہ سجادہ نشین حضرت سلطان الواعظین زرین کلاہ کا دل کی گہرائیوں سے خیرمقدم کرتا ہوں اور کہا کہ یہ معزز ، نامور اور قابل احترام شخصیات اپنے وعدے کے مطابق ہمارے جلسے میں شرکت کررہی ہیں۔ جبکہ ان معزز حضرات کو دوسرے پروگرامس میں بھی جانا تھا۔
عارف قریشی نے ان پروفیسر کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے ہمارے سووینر کے مضامین دیئے اور ان حضرات کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے ہمارے سووینر کو زینت بخشی۔ عارف قریشی نے ڈاکٹر حبیب ضیاء سابق پروفیسر و صدر شعبہ اُردو عثمانیہ یونیورسٹی کالج فار ویمن کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا جنہوں نے ہمارے سووینر کے پروفیسرس سے مضامین اکھٹا کرکے میرے حوالے کئے۔ عارف قریشی نے تمام شعراء کرام کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے ساوینر کیلئے اپنی بہترین غزلوں سے ساوینر کی خوبصورتی میں اضافہ کیا۔ عارف قریشی نے سامعین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اپنے بچوں کو عثمانیہ یونیورسٹی سے تعلیم دلواکر عثمانیہ یونیورسٹی کی خدمت کریں جب ہمارے بچے عثمانیہ یونیورسٹی میں داخلہ لے کر تعلیم حاصل کریں گے تب عثمانیہ یونیورسٹی پھر سے پہلے جیسی خدمات انجام دے گی۔ جناب خاں صاحب بادشاہ نواز خاں نے اپنی تقریر میں عارف قریشی سے دیرینہ دوستی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ عارف قریشی نے جو سووینر 2019ء شائع کیا ہے، وہ ایک عظیم کارنامہ ہے۔ انہوں نے اس سووینر کو ترتیب دے کر عثمانیہ یونیورسٹی سے دلی لگاؤ کا ثبوت دیا ہے اور کہا کہ عارف قریشی کے فلاحی و سماجی کارناموں سے میں قریب سے واقف ہوں۔میں گواہ ہوں کہ انہوں نے خدمت خلق کے جذبہ سے ہر ایک کی مدد کی ہے۔ پروفیسر ایس اے شکور نے عارف قریشی کو ان کے سووینر کی رسم اجراء پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دی اور کہا کہ عارف قریشی کے ’’عثمانین‘‘ ہونے پر فخر کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اس ساوینر 2019ء بسلسلہ 100 سالہ عظیم تاریخی تعلیمی خدمات، جامعہ عثمانیہ کو شائع کرنے کیلئے اپنے جیب ِخاص سے دو لاکھ روپے خرچ کئے ہیں جو قابل تعریف ہے اور ان کے اس سووینر سے ان کا عثمانیہ یونیورسٹی سے گہرے تعلق کا اظہار ہوتا ہے۔ پروفیسر ایس اے شکور نے کہا کہ اُردو کی خستہ حالی کی ذمہ دار حکومت نہیںبلکہ خود اُردو والے ہیں۔ انہوں نے اُردو ذریعہ تعلیم پر سیر حاصل تقریر کی۔
صدر جلسہ پروفیسر محمد سلیمان صدیقی سابق وائس چانسلر جامعہ عثمانیہ کے ہاتھوں سے ساوینر 2019ء کی رسم اجراء عمل میں آئی۔ رسم اجراء کے بعد سامعین میں (ساوینر 2019ء بسلسلہ 100 سالہ عظیم تاریخی تعلیمی خدمات جامعہ عثمانیہ ، حیدرآباد) مفت تقسیم کی گئی۔
جناب عامر علی خاں صاحب نے پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا کہ جب میں ابتداء میں سیاست آفس میں اپنی خدمات انجام دے رہا تھا تب ہر اتوار کے سیاست اخبار میں جدہ سے عارف قریشی کی خدمات اور کارناموں کی خبریں شائع ہوا کرتی تھیں اور جب بھی آفس میں سعودی عرب جدہ کا ذکر ہوتا تو عارف قریشی صاحب کا تذکرہ ضرور ہوتا تھا اور مزید کہا کہ حضور نظام کی دور اندیشی کا نتیجہ ہے کہ عثمانیہ یونیورسٹی اور عثمانیہ دواخانہ سے آج بھی عوام فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس گھر سے مادری زبان چلی جاتی ہے۔ اس گھر سے تہذیب بھی چلی جاتی ہے، ہمارا اولین فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اور آنے والی نو نسل کو اُردو زبان سے واقف کروائیں۔ حضور نظام نے کہا تھا کہ علم روشنی ہے اور جہالت تاریکی، اب وقت آگیا ہے ہم اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ بنائے۔
جناب نواب نجف علی خاں نے کہا کہ اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خاں بہادر انتہائی دور اندیش دانشور تھے جس کا ثبوت یہ ہے کہ جامعہ عثمانیہ کی عمارت اور خاص طور سے آرٹس کالج کی وہ یادگار عمارت آج بھی عظمت رفتہ کے گن گا رہی ہے۔ یہ ایک عمارت اور درس گاہ ہی نہیں دکن کی علمی، تہذیبی اور ثقافت کی یادگار ہے۔ انہوں نے عارف قریشی کی جانب سے شائع ہونے والے (سووینر 2019ء) کی بے انتہا تعریف کی اور دلی مبارکباد پیش کی اور کہا کہ اس کتاب سے آنے والی نسل انشاء اللہ فائدہ اٹھائے گی۔ صدر جلسہ پروفیسر محمد سلیمان صدیقی سابق وائس چانسلر نے صدارتی خطاب میں کہا کہ اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خاں بہادر نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔ وہ قابل فخر ہیں۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام کے بعد شعبہ اُردو کی طرف خاص توجہ دی گئی جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس جامعہ نے اُردو زبان کو ذریعہ تعلیم قرار دیا تھا۔ انہوں نے عارف قریشی کی خدمات کی ستائش کی کہ انہوں نے جدہ سعودی عرب میں ملازمت کرتے ہوئے شاندار اور یادگار (سووینر 2019ء) کی اشاعت عمل میں لائی۔ ان کیلئے میری جانب سے دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
مولانا سید محمود بادشاہ قادری زرین کلاہ نے حضور نظام کی خدمات پر روشنی ڈالی اور کہا کہ حضور نظام ہندو مسلمان کو اپنی دو آنکھوں تصور کرتے تھے۔ مولانا سید محمود بادشاہ نے دعا کی۔ عارف مسعود صدیقی نے شکریہ ادا کیا۔