بستیوں میں چلتے ہیں، عوام سے پوچھتے ہیں مہنگائی ہے کہ نہیں

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس

جناب صدرنشین !
مہنگائی کے مسئلہ پر بحث بہت دن پہلے ہی ہونی چاہئے تھی۔ ویسے بھی میں قاعدہ 267 کے تحت ایک بحث اور کسی دوسرے اصول کے درمیان فرق سمجھنے سے قاصر ہوں۔
آیئے! قیمتوں میں اضافہ پر بحث کریں۔ یہ ملک کی معاشی حالت پر کوئی بحث نہیں ہے۔ اگر ملک کی معاشی حالت پر بحث ہوتی تو ہمارے پاس اس حکومت کے معاشی نظم یا اکنامک مینجمنٹ بلکہ ناقص معاشی مینجمنٹ کے بارے میں کہنے کیلئے بہت کچھ ہے۔ اس حکومت نے جب سے اپنی بدنام زمانہ نوٹ بندی نافذ کی تب سے ہی معیشت کی حالت ابتر ہوتی جارہی ہے۔
اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔قیمتوں میں اضافہ سے عوام بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ خاص طور پر غریب اور متوسط طبقہ بہت زیادہ پریشان ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اشیاء کے استعمال اور بچت میں گراوٹ آتی ہے۔ گھرانوں کے قرض اور ناقص غذا (بالخصوص خواتین اور بچے ناقص غذا سے شدید متاثر ہوتے جارہے ہیں) کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر بچوں اور خواتین کو غذائیت سے بھرپور غذائیں دستیاب نہ ہوں تو پھر ان کا نمو اس طرح رُک جاتا ہے جس طرح ناقص معاشی مینجمنٹ سے معیشت کا نمو رُک جاتا ہے، لیکن افسوس کہ حکومت ان حقائق کو تسلیم کرنے کیلئے تیار ہی نہیں ہے۔ کل ہی میں عزت مآب وزیر فینانس کو دوسرے ایوان میں یہ کہتے ہوئے سن کر وحشت زدہ ہوگیا کہ جی ایس ٹی شرحوں میں اضافہ سے لوگوں پر اثر نہیں پڑا اور نہ ہی پڑے گا۔ ان کے بیان کو ایک سادہ آزمائش سے گذارا جاسکتا ہے جس کا میں اپنی مداخلت کے اختتام پر انکشاف کروں گا۔
مجھے امید ہے کہ ایوان میں ہونے والی بحث صرف گھماؤ پھراؤ کی حد تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کا کوئی نتیجہ ضرور برآمد ہوگا۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے اکثر مباحث میں حکمراں جماعت کسی نہ کسی طرح اپنا دامن بچالیتی ہے اور اہم مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتی ہے۔ آج ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ بحث و مباحث میں چاہے وہ ایوان میں ہی کیوں نہ ہوں، ’’توتو میں میں‘‘ کی جارہی ہے۔ میں حکومت اور تمام عزت مآب ارکان پر زور دیتا ہوں کہ وہ قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ کی حقیقت کو قبول کریں اور ایوان میں صرف متعلقہ سوالات کریں، غیرمتعلقہ سوالات سے گریز کرتے ہوئے ایوان کا وقت بچائیں اور خاص طور پر حکومت سے یہ سوال ضرور کریں کہ افراط زر پر قابو پانے حکومت آخر کیا اقدامات کرنے والی ہے؟ سب سے اہم بات تو موجودہ افراط زر یا مہنگائی کے اسباب کی نشاندہی کرنا ہے۔ اس سلسلے میں مجھے ’’مالی خسارے سے شروع کرنے دیجئے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک بڑا اور بڑھتے ہوئے مالی خسارہ کے یقینا قیمتوں پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس بارے میں تفصیلی طور پر سمجھانے کیلئے میرے پاس وقت نہیں ہے۔ جاریہ سال کے بجٹ کیلئے حکومت نے مالی خسارہ کا جو تخمینہ مقرر کر رکھا ہے۔ وہ 6.4% یا 16,61,196 کروڑ روپئے ہے۔ اپریل ۔ جون میں مالی خسارہ 3,51,871 کروڑ روپئے تک پہنچ گیا۔ ہم جانتے ہیں کہ حکومت نے مصارف کو کم بتایا اور اسے آمدنی کے تخمینہ میں شامل نہیں کیا۔ اب یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا حکومت نے آمدنی کو بھی کم بتایا ہے؟ آیا حکومت مالی خسارہ کو 6.4% تک برقرار رکھ پائے گی؟ اس سوال کا ہم مخصوص جواب چاہتے ہیں۔
انسانوں کے پیدا کردہ اسباب
دوسری اہم بات کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ(CAD) ہے، آپ کو بتادوں کہ اپریل ۔ جون میں CAD تقریباً 30 ارب ڈالرس ہوسکتا ہے جبکہ جولائی میں تجارتی خسارہ 31 ارب ڈالرس تھا۔ اگر CAD پورے سال کیلئے 100 ارب ڈالرس کو پار کرلیتا ہے جیسا کہ تخمینہ لگایا گیا ہے تب اس کے تباکن نتائج برآمد ہوں گے۔ آیئے حکومت کو اس ایوان کو یہ بتانے دیجئے کہ وہ CAD کے بارے میں کیا کرنے کی تجویز یا منصوبہ رکھتی ہے۔ پھر ایک بار جناب صدرنشین میں ایک مخصوص جواب چاہتا ہوں۔
تیسری خط ِسرخ شرح سود ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ Policy Rate ریزرو بینک آف انڈیا مقرر کرتا ہے۔ حکومت نے مانیٹری پالیسی کمیٹی کیلئے 3 ارکان کو نامزد کیا ہے۔ حکومت کے معتمد آر بی آئی بورڈ میں شامل ہیں۔ ایسے میں حکومت یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ حکومت نے جو مالیاتی پالیسی اپنائی ہے، اس میں شرح سود پر توجہ دے کر اضافہ کیا گیا ہے اور جس کا سلسلہ جاری ہے۔ مجھے اس بات کا شبہ ہے کہ ہمارا ملک اس ضمن میں کوئی اور طریقہ اختیار کرے گا۔ اگر آر بی آئی شرح سود میں اضافہ کرتی ہے تو وہ طلب پر قابو پاسکتی ہے جس کے نتیجہ میں اعتدال پسندانہ قیمتیں منظر عام پر آسکتی ہیں لیکن اس سے فروخت منافع مذکورہ تمام چیزوں اور روزگار پر اثر پڑے گا۔ یہ چال شرح کے تعین سے متعلق طریقہ کار میں مضمر ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت اور آر بی آئی گورنر کیا ایک ہی موقف رکھتے ہیں؟
چوتھی بات یا چوتھا اہم نکتہ ’’سپلائی سائیڈ‘‘ ہے چونکہ ایک محدود وقت تک فراخدلانہ درآمدات کو خارج از امکان قرار دیا ہے لیکن یہ سوال بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ آیا حکومت ملکی پیداوار اور سربراہی بڑھانے کیلئے اقدامات کرے گی؟ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ کاروبار جی ایس ٹی قوانین اور شرحوں سے متاثر ہوئے۔ میرا سوال یہ ہیکہ اشیاء اور خدمات کی وافر سربراہی کو یقینی بنانے کیلئے حکومت کیا ارادے رکھتی ہے؟
میری فہرست میں جو آخری چیز ہے، اس چیز یا آئٹم نے اکثر لوگوں کو بہت زیادہ پریشان کر رکھا ہے اور وہ ہے حکومت کی ٹیکس پالیسی۔میں حکومت پر حقیقی گناہ کا الزام عائد کرتا ہوں اور وہ گناہ پٹرول و ڈیزل کے ساتھ ساتھ دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ حکومت نے پٹرول اور ڈیزل پر ظالمانہ محاصل عائد کئے۔ حکومت نے محاصل کی شکل میں تیل کی کمپنیوں کے ذریعہ 2600,000 کروڑ کی کثیر رقم جمع کرلی۔ اگر دیکھا جائے تو یہ حکومت غریبوں کی دشمن ہے۔ وہ غریبوں کے تئیں سنگدلی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ حکومت ان اشیاء اور خدمات پر وقفہ وقفہ سے جی ایس ٹی عائد کرتی جارہی ہے جو غریب اور متوسط طبقہ کے لوگ زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ حکومت کو 6 سالہ کیرتی دوبے کے درد کا احساس بھی نہیں۔ کیرتی یہ نہیں سمجھ سکی کہ جب بھی اس نے اپنی ماں سے ایک اور پینسل دینے کیلئے کہا، وہ اس پر برہم ہوجاتی ہے۔ کیرتی کو پتہ ہی نہیں کہ اس کی ماں اسے اس لئے ڈانٹتی ہے کیونکہ حکومت نے پینسل ربر کے بشمول کئی اسٹیشنری ایٹمس پر جی ایس ٹی نافذ کردیا ہے۔ اگر حکومت میں فراخدلی ہوتی یا عقلمندی ہوتی تو وہ پٹرول اور ڈیزل پر عائد ٹیکسوں میں کمی کرتے ہوئے اسے درمیانی سطح پر رکھتی۔ ایل پی جی کی قیمتوں میں کمی کرتی، ساتھ ہی پٹرول اور ڈیزل کے ساتھ اشیائے ضروریہ پر عائد کئے گئے محاصل کو واپس لیتی۔ یہ ایسی اشیائے ضروریہ ہیں جو غریب اور متوسط طبقہ کے لوگ استعمال کرتے ہیں،
جناب صدرنشین مجھے اپنا خطاب ایک آزمائش یا امتحان کی پیشکشی کے ساتھ ختم کرنے دیجئے۔ میں نے اپنے خطاب کے ابتداء میں ہی کہا تھا کہ ایک آزمائش یا ٹسٹ کرنا چاہوں گا۔ اس کیلئے ہم تینوں ’’آپ جناب صدرنشین! عزت مآب وزیر فینانس اور میں ایک غیرنشانہ زدہ کار چلتے ہیں، بناء کسی سکیورٹی کے اور اس کار کے ذریعہ دہلی کی کسی گندہ بستی یا پھر متوسط طبقہ کے محلہ میں جاتے ہیں۔ جناب صدرنشین آپ وہاں لوگوں سے یہ سوال کریں گے کہ آیا وہ فیول کی قیمتوں، ایل پی جی کی قیمت میں اضافہ اور جی ایس ٹی کی شرحوں سے متاثر ہوئے ہیں یا نہیں؟ میں عوام کے فیصلہ کو ماننے کیلئے تیار ہوں اور مجھے امید ہے کہ ہمارے عزت مآب وزیر فینانس بھی عام آدمی کے فیصلہ کو مانیں گی۔