دمشق : غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق شام کے صدر بشارالاسد نے 95.1 فیصد ووٹ لئے اور وہ چوتھی مرتبہ ملک کے صدر منتخب ہوں گے جب کہ ان کے مخالفین نے ان پر الیکشن میں دھاندلی کا بھی الزام عائد کیا ہے۔الیکشن میں کامیابی پر بشارالاسد کی حکومت کا کہناہیکہ انتخابات یہ واضح کرتے ہیں کہ طویل عرصے سے جاری خانہ جنگی کے باوجود بھی شام معمول کے مطابق چل رہا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق شامی پارلیمنٹ کے سربراہ نے نیوز کانفرنس کے ذریعہ الیکشن میں بشارالاسد کی کامیابی کا اعلان کیا اور بتایا کہ الیکشن میں 14 ملین شہریوں نے حصہ لیا اور ووٹنگ ٹرن آؤٹ 78 فیصد رہا۔الیکشن میں کامیابی پر بشارالاسد نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں اپنے حامیوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ایک بار پھر کل سے امید اور شام کی تعمیر کے لیے کام شروع کرتے ہیں۔دوسری جانب فرانس، جرمنی، اٹلی، برطانیہ اور امریکی وزرائے خارجہ نے شام کے صدارتی انتخابات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہیکہ الیکشن آزادانہ ماحول میں نہیں کرائے گئے جب کہ ترکی نے بھی ان الیکشن کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔انتخابات میں کامیابی کے بعد 55 سالہ بشارالاسد ایک بار پھر مزید 7 سال اقتدار میں رہیں گے۔ بشارالاسد کے خاندان کے اقتدار کی مدت تقریباً 6 دہائی پر مشتمل ہے، ان کے والد حفیظ الاسد 1971 سے 2000 تک شام کے صدر رہے اور 2000 میں انتقال کرگئے۔