بیروت ۔ 7 نومبر (ایجنسیز) تقریباً ایک سال قبل شام کے سابق نظام حکومت کو اقتدار سے محروم کر دیا گیا تھا۔ تاہم اب بھی اس حوالے سے سوالات موجود ہیں کہ اس نظام کے اہم عہدیداران جن پر شامی عوام کے خلاف جرائم کے الزامات ہیں … کہاں چلے گئے اور کیسے غائب ہوگئے۔ امریکی نیوز چینل سی این این کی ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ شامی فوج کا سابق جنرل بسام الحسن جو دسمبر 2024 میں نظام کے خاتمے کے بعد فرار ہوگیا تھا، اس وقت بیروت میں موجود ہے۔ لبنان بعض اہم شامی عہدے داروں کیلئے ایک عبوری گزرگاہ بنا جنھوں نے بعد میں ماسکو کا رخ کیا۔ ان میں علی مملوک (سابق سربراہ قومی سلامتی)، محمد محلّا (سابق سربراہ فوجی انٹلیجنس) اور غیاث دلا (ماہر الاسد کے زیرِکمان چوتھی ڈویڑن کا افسر) شامل ہیں۔ ان افراد کو بیروت سے ماسکو فرار ہوتے دیکھا گیا۔ادھر عبدالسلام محمود جو فضائی انٹلیجنس کے تحقیقاتی شعبے کے سربراہ تھے، شام سے لبنان اور پھر ایران پہنچ گئے۔ جبکہ علی ضاہر جو کِفاح ملحم کے دفتر سلامتی سے وابستہ تھے، ابھی تک جبل لبنان میں مقیم ہیں۔حال ہی میں لبنانی عدلیہ کو ایک فرانسیسی عدالتی استدعا موصول ہوئی ہے، جس میں تین سابق شامی سیکیورٹی عہدیداروں جمیل الحسن، علی مملؤ اور عبدالسلام محمود کی حوالگی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ فرانس نے ان پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے ہیں اور بیروت سے لبنان میں ان کے ممکنہ قیام کی تحقیقات کا کہا ہے۔سیاسی تجزیہ کار نضال السبع کے مطابق عالمی پولیس انٹرپول نے شامی نظام کے سقوط کے فوراً بعد لبنان کو مطلع کیا تھا کہ جمیل الحسن، عبدالسلام محمود اور دیگر تیس افسران لبنان میں ہیں۔ ان میں سے حسن کی حوالگی کا مطالبہ امریکہ نے بھی کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ فرانس کی تازہ استدعا سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان افسران کے لبنان میں موجود ہونے کے شواہد مل چکے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہیکہ جمیل الحسن لبنان کے ایک دیہی علاقے میں روپوش ہیں اور اپنی رہائش گاہ سے باہر نہیں نکلتے۔ اسی دوران علی مملؤ کے اہلِ خانہ بیروت میں رہائش پذیر ہیں اور وہاں ان کے کاروباری مفادات بھی موجود ہیں، جب کہ ان کے بھائی کینسر کے علاج کیلئے بیروت کے ایک ہاسپٹل میں زیرِعلاج ہیں۔مزید انکشاف ہوا کہ بسام الحسن، جو کیمیائی حملوں اور امریکی صحافی آسٹن ٹائس کے اغوا میں ملوث قرار دیا جاتا ہے۔ وہ پہلے لبنان پہنچا، پھر تہران کی مدد سے ایران گیا اور بعد میں دوبارہ بیروت لوٹ آیا۔ وہاں ایک امریکی تحقیقاتی ٹیم نے اس سے پوچھ گچھ کی، جس میں اس نے مبینہ طور پر بتایا کہ ٹائس کے قتل کا حکم خود بشار الاسد نے دیا تھا۔