نئی دہلی : 5 ڈسمبر (ایجنسیز) سپریم کورٹ نے حال ہی میں کہا ہے کہ اگر کوئی عورت کوئی نجی یا ذاتی کام نہیں کر رہی ہو تو اس کی اجازت کے بغیر اس کی تصویر لینا جرم نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ جب کوئی عورت نجی سرگرمی میں مصروف نہ ہو تو اس کی تصویر کھینچنا یا اس کی رضامندی کے بغیر موبائل فون سے ویڈیو بنانا، ہندوستانی تعزیری قانون کی دفعہ 354 سی کے تحت ’’تانک جھانک‘‘ کے زمرے میں نہیں آتا۔ایک ایسے ہی معاملے کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس این کوٹیشور سنگھ اور جسٹس منموہن کی بنچ نے ایک ملزم کو بری کر دیا، جس پر یہ الزام تھا کہ اس نے شکایت گزار خاتون کی تصاویر اور ویڈیو بنا کر اسے دھمکایا۔ خاتون نے دعویٰ کیا تھا کہ ملزم نے اس کی پرائیویسی میں مداخلت کی اور اس کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچائی۔شکایت گزار نے 19 مارچ 2020 کو ملزم کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی۔ شکایت آئی پی سی کی دفعات 341، 354سی اور 506 کے تحت درج کی گئی۔ خاتون نے الزام لگایا کہ 18 مارچ 2020 کو جب وہ اپنے دوست اور کچھ کام کرنے والوں کے ساتھ ایک پراپرٹی میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی تھی، تو ملزم نے انہیں اندر جانے سے روکا اور دھمکی دی۔خاتون نے یہ بھی الزام لگایا کہ ملزم نے اس کی رضامندی کے بغیر اس کی تصاویر اور ویڈیو بنائی، جس سے اس کی پرائیویسی میں مداخلت ہوئی اور اس کی عزت مجروح ہوئی۔ پولیس نے تفتیش کے بعد 16 اگست 2020 کو ملزم کیخلاف ان دفعات کے تحت چارج شیٹ داخل کی۔سپریم کورٹ نے کولکتہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی توثیق کی، جس میں ملزم کے خلاف فوجداری مقدمہ خارج کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ شکایت میں درج الزامات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ محض تصاویر یا ویڈیو بنانا آئی پی سی کی دفعہ 354 سی کے تحت جرم نہیں بنتا۔
سپریم کورٹ میں تملناڈو حکومت کی عرضی سماعت کیلئے قبول
نئی دہلی: 5 ڈسمبر (یو این آئی) سپریم کورٹ نے تروپرمکندرم میں واقع پتھر کے دیپ استمبھ ’’دیپتھون‘‘ میں درگاہ کے نزدیک ارُلمِگھو سُبرمنیا سوامی مندر کے عقیدت مندوں کو روایتی کارتیگئی دیپم جلانے کی اجازت دینے کے مدراس ہائی کورٹ کے حکم کیخلاف تملناڈو حکومت کی درخواست پر جمعہ کے روز سماعت کیلئے رضامندی ظاہر کی۔چیف جسٹس سوریا کانت اور جسٹس جوئے مالیا باگچی کی بنچ نے ریاستی حکومت کی طرف سے پیش ہوئے وکیل کی دلیلیں سنیں اور کہا کہ اس درخواست کو بینچ کے سامنے فہرست میں شامل کرنے پر غور کیا جائے گا۔ جب معاملے کا ذکر بینچ کے سامنے کیا گیا تو مدعا علیہان کے ایک وکیل نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ صرف یہ ظاہر کرنے کیلئے ’’غیر ضروری ڈرامہ‘‘ کر رہی ہے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے علم میں لایا گیا ہے۔ تاہم سرکاری وکیل نے وضاحت کی کہ وہ محض معاملے کا ذکر کر رہے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس پر غور کریں گے۔ مدراس ہائی کورٹ کی مدورئی بنچ نے جمعرات کو مدورئی کے ضلع کلکٹر اور شہر کے پولیس کمشنر کی جانب سے دائر انٹرا کورٹ اپیل کو خارج کر دیا اور سنگل جج کے اس حکم کو برقرار رکھا، جس میں عقیدت مندوں کو دیپتھون میں کارتیگئی دیپم جلانے کی اجازت دی گئی تھی۔
یکم دسمبر کو جسٹس جی۔ آر۔ سوامیناتھن کی سنگل بینچ نے کہا تھا کہ ارُلمِگھو سُبرمنیم سوامی مندر، اوچی پلّئیّار منڈپم کے نزدیک موجود روایتی روشنی کے ستون کے علاوہ دیپتھون پر بھی دیپ جلانے کا پابند ہے۔ عدالت نے کہا تھا کہ ایسا کرنے سے نزدیک موجود درگاہ یا مسلم کمیونٹی کے حقوق متاثر نہیں ہوں گے۔جب اس حکم پر عمل درآمد نہیں ہوا تو سنگل جج نے 3 دسمبر کو ایک اور حکم جاری کیا، جس میں عقیدت مندوں کو خود دیپ جلانے کی اجازت دی گئی اور سی آئی ایس ایف کو ان کی حفاظت یقینی بنانے کی ہدایت دی گئی۔ اس کے بعد ریاستی حکومت کو سپریم کورٹ کا رخ کرنا پڑا۔