مسلمانوں میں مصلحت ، اتحاد اور موثر حکمت عملی کا فقدان
سنگاریڈی۔ 30 جنوری۔ ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) مقامی ادارہ جات میں مسلم نمائندگی میں اضافہ کی خواہش کا اظہار تو ہر گوشہ سے کیا جاتا ہے لیکن اس کے حصول کیلئے عملی اقدامات کا فقدان ہے۔ بلدیہ سنگاریڈی میں دس سال قبل 11مسلم کونسلرس منتخب ہوئے تھے جبکہ گذشتہ بلدیہ میں 10 اور اب یہ تعداد گھٹ کر 9 تک پہنچ چکی ہے۔ مسلم کونسلرس کی تعداد میں کمی کی ایک وجہ بلدی وارڈس کی جدید حد بندی ہو سکتی ہے لیکن اسی کو مکمل وجہ مان کر خاموش ہو جانا دراصل مسئلہ سے انجان ہو جانا ہے۔ اس مرتبہ اگر مسلمان مصلحت’ اتحاد اور موثر حکمت عملی اپنائی ہوتی تو کم از کم 12 مسلم کونسلرس منتخب ہونے کا قوی امکان تھا۔ سنگاریڈی بلدیہ میں اس مرتبہ 9 مسلم کونسلرس منتخب ہوے جن کا تعلق مسلم اکثریتی وارڈس سے ہے۔ 38 رکنی بلدیہ سنگاریڈی میں کانگریس پارٹی نے 9 بلدی وارڈس، ٹی آر ایس نے 8 ،مجلس نے 10 اور سی پی آئی نے 1 وhرڈ سے امیدواروں کو ٹکٹ دیا جبکہ 20 مسلم آزاد امیدواروں نے بھی اپنی قسمت آزمائی کی۔ بلدیہ سنگاریڈی میں جملہ 70ہزار 405 ووٹس ہیں جس میں سے 50 ہزار 894 ووٹ یعنی 72.3 فیصد پولنگ ہوئی۔ سنگاریڈی میں 40 فیصد مسلم آبادی ہونے کے باوجود مسلم نمائندگی کم ہے۔ 17 بلدی وارڈس میں مسلم امیدواروں نے مقابلہ کیا اور انھیں جملہ 12 ہزار 111 ووٹ حاصل ہوئے۔ وارڈ نمبر 5 سے کانگریس امیدوار ممتاز بیگم’ وارڈ نمبر 6 سے ٹی آر ایس امیدوار محمد سہیل علی، وارڈ نمبر 17 سے کانگریس امیدوار غوثیہ بیگم’ وارڈ نمبر 20 سے مجلس امیدوار شیخ عارف، وارڈ نمبر 24 سے کانگریس امیدوار حافظ شیخ شفیع’ وارڈ نمبر 25 سے ٹی آر ایس امیدوار انجم بیگم، وارڈ نمبر 26 سے کانگریس امیدوار شیخ صابر’ وارڈ نمبر 34 سے آزاد امیدوار محمد سمیع اور وارڈ نمبر 38 سے مجلسی امیدوار ناظمہ تبسم نے کامیابی حاصل کی۔ وارڈ نمبر 14 میں مجلس امیدوار نے 32 اور آزاد امیدوار نے 304 ووٹ حاصل کیے۔ یعنی دونوں امیدواروں کو جملہ 336 ووٹ ملے جبکہ اس وارڈ سے کامیاب آزاد امیدوار کو 328 ووٹ حاصل ہوئے۔ وارڈ نمبر 15 سے دو مسلم آزاد امیدوار میدان میں تھے جنھِیں مجموعی طور پر 435 ووٹ حاصل ہوئے جبکہ یہاں سے کامیاب ٹی آر ایس امیدوار کو 396 ووٹ حاصل ہوے۔ وارڈ نمبر 19 سے چار مسلم امیدواروں نے مقابلہ کیا اور انھیں جملہ 384 ووٹ حاصل ہوئے جبکہ یہاں سے کامیاب ٹی آر ایس امیدوار کو 510 ووٹ ملے۔ اگر ان وارڈس میں مسلمان مصلحت، فراست اور اتحاد کا مظاہرہ کرتے تو شائد ان تین حلقوں میں بھی کامیاب ہو جاتے۔ اس طرح کے حلقوں میں مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنے اور کامیابی کیلئے شہر کے ذی اثر حضرات کے علاوہ مذہبی، ملی اور سماجی تنظیموں کو آگے بڑھ کر رہبری و رہنمائی کرنے کی ضرورت تھی۔ اپنے اثر و رسوخ سے رائے عامہ ہموار کروانا ان کیلئے کوئی بڑا کام نہیں تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ذی اثر اصحاب اور تنظیمیں انتخابات میں مداخلات کوبدنامی کا سبب اور شجر ممنوعہ خیال کریں گے تو پھر اقتدار کے ایوانوں میں مسلم نمائندگی میں اضافہ کس طرح ہوگا ؟۔ تینوں حلقوں میں آزاد امیدواروں نے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں ۔ بلدیہ انتخابات کی رائے شماری کا تجزیہ نے مسلمانوں کی اس دلیل کو بھی ثابت کردیا کہ سنگاریڈی میں مسلم ووٹرس 30 فیصد سے زائد ہیں۔ مقامی ادارہ جات میں مسلم نمائندگی میں اضافہ کیلئے اس طرح کے نتائج سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیے اور کم از کم مستقبل میں موثر حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔