انچارج بنائے گئے تینوں حلقوں میں ٹی آر ایس کی کامیابی، کئی اہم قائدین کے رشتہ داروں کو شکست
حیدرآباد: گریٹر بلدی انتخابات میں ٹی آر ایس کا مظاہرہ اگرچہ ناقص رہا لیکن جن وزراء کو مختلف حلقوں کا انچارج مقرر کیا گیا تھا ، ان میں سب سے بہتر مظاہرہ وزیر فینانس ہریش راؤ کا رہا۔ ہریش راؤ دوباک کے حالیہ ضمنی چناؤ میں ٹی آر ایس پارٹی کے انچارج تھے لیکن بی جے پی کی کامیابی کے بعد ان پر مختلف گوشوں سے نکتہ چینی کی گئی۔ گریٹر بلدی انتخابات میں انہیں پٹن چیرو اسمبلی حلقہ کے 3 بلدی ڈیویژنوں کا انچارج مقرر کیا گیا تھا ۔ ان تینوں حلقوں میں ٹی آر ایس کو کامیابی حاصل ہوئی ۔ پٹن چیرو ، بھارتی نگر اور آر سی پورم ڈیویژنوں میں ہریش راو کی مہم اور مساعی کے نتیجہ میں ٹی آر ایس امیدواروں کو کامیابی حاصل ہوئی اور پارٹی میں ہریش راؤ کی ہر گوشہ سے ستائش کی جارہی ہے ۔ انہوں نے بہتر حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے تینوں حلقوں میں بھاری اکثریت سے امیدواروں کی کامیابی کو یقینی بناتے ہوئے پارٹی میں اپنے ناقدین کو کڑا جواب دیا ہے۔ اسی دوران مرکزی مملکتی وزیر داخلہ جی کشن ریڈی جو حلقہ لوک سبھا سکندرآباد کی نمائندگی کرتے ہیں، پارٹی نے حلقہ میں 13 بلدی ڈیویژنس پر کامیابی حاصل کی جبکہ ٹی آر ایس 19 اور مجلس کو 8 نشستوں پر کامیابی ملی ۔ 40 وارڈس میں بی جے پی کو مشیر آباد اسمبلی حلقہ میں 5 نشستیں حاصل ہوئی ہیں جس کی نمائندگی سابق میں ڈاکٹر لکشمن کرچکے ہیں۔ عنبرپیٹ اسمبلی حلقہ میں جو سابق میں کشن ریڈی کا حلقہ تھا ، وہاں بی جے پی کو تین بلدی ڈیویژنس میں کامیابی ملی۔ رکن کونسل کویتا کو گاندھی نگر وارڈ کا انچارج مقرر کیا گیا تھا لیکن وہاں ٹی آر ایس کو شکست ہوئی ۔ کویتا نے رائے دہندوں سے ووٹ کی اپیل کرتے ہوئے کئی ویڈیو جاری کئے تھے۔ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ریونت ریڈی اپنے حلقہ لوک سبھا ملکاجگری میں دو حلقوں پر پارٹی امیدواروں کو کامیاب بناسکے۔ ملکاجگری کے 46 وارڈس میں اُپل اور اے ایس راؤ نگر سے کانگریس کو کامیابی حاصل ہوئی ۔ 2016 ء میں کانگریس کو دو نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔ ملکاجگری کے 26 حلقوں میں ٹی آر ایس اور 18 میں بی جے پی نے کامیابی حاصل کی ۔ اسی دوران ٹی آر ایس کی جانب سے موجودہ کارپوریٹرس کو دوبارہ ٹکٹ دینے کا فیصلہ نقصان دہ ثابت ہوا ہے ۔ پارٹی نے 99 کارپوریٹرس میں 72 کو دوبارہ ٹکٹ دیا تھا جن میں سے 35 کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بتایا جاتا ہے کہ کارپوریٹرس کے خلاف مقامی عوام کی ناراضگی کے نتیجہ میں ٹی آر ایس کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔