بلدی انتخابات کے نتائج پر ٹی آر ایس قیادت فکرمند

   

عوامی نارا ضگی اور داخلی اختلافات ، وزراء اپنی کرسی بچانے کیلئے سرگرم، کانگریس کے منحرف ارکان اسمبلی کو مخالفت کا سامنا
حیدرآباد ۔ 21 ۔ جنوری (سیاست نیوز) بلدی انتخابات کی رائے دہی کو صرف ایک دن باقی ہے لیکن ٹی آر ایس پارٹی میں نتائج کے سلسلہ میں ابھی سے مختلف قیاس آرائیاں شروع ہوچکی ہیں۔ پارٹی ورکنگ پریسیڈنٹ کے ٹی راما راؤ نے انتخابی مہم کے اختتام کے بعد وزراء اور سینئر قائدین سے ہر ضلع میں پارٹی کے موقف کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ بعض خانگی کمپنیوں کے ذریعہ ٹی آر ایس کے امکانات پر سروے کرایا گیا۔ سروے رپورٹ کا کے ٹی آر نے جائزہ لیا اور اپنے بااعتماد قائدین کو رپورٹ کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ انتخابی مہم کے دوران ٹی آر ایس قائدین کو جن تجربات سے گزرنا پڑا ، انہیں پارٹی کیلئے تشویش کا باعث سمجھا جارہا ہے ۔ انتخابی مہم میں مصروف رہے وزراء ، ارکان اسمبلی اور پارٹی امیدواروں کو بیشتر مقامات پر عوام کے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے لئے پارٹی میں داخلی اختلافات اور گروہ بندیوں کے سبب انتخابی مہم کو حوصلہ افزاء نہیں کہا جاسکتا۔ ان حالات میں پارٹی قیادت نتائج کے بارے میں الجھن کا شکار ہے۔ باوثوق ذرائع نے بتایا کہ ورکنگ پریسیڈنٹ نے وزراء اور ارکان اسمبلی کو ہدایت دی ہے کہ وہ ٹی آر ایس کے حق میں رائے دہی کو یقینی بنائے، اس کے لئے جو کچھ بن پڑے کریں۔ ذرائع کے مطابق وزراء اور ارکان اسمبلی کو ہدایت دی گئی کہ جہاں ضرورت ہو ، رائے دہندوں میں بھاری رقومات کی تقسیم سے گریز نہ کیا جائے۔ پارٹی قیادت نے وزراء اور ارکان اسمبلی کو مخالف نتائج کی صورت میں سخت وارننگ دی ہے۔ ریاستی وزراء اپنی وزارت کو بچانے کی فکر میں ہے اور متعلقہ اضلاع میں نہ صرف دن رات انتخابی مہم میں مصروف رہے بلکہ انتخابی مہم کے اختتام کے بعد رائے دہندوں کو منانے کیلئے مختلف طریقے اختیار کر رہے ہیں۔ چیف منسٹر کے سی آر نے انتخابی نتائج کی بنیاد پر کابینہ میں تبدیلی کا اشارہ دیا ہے۔ جن اضلاع میں نتائج ٹی آر ایس کے حق میں نہ ہوں وہاں کے وزراء کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ٹی آر ایس پارٹی کیلئے انتخابی مہم کے دوران ایک اور اہم مسئلہ درپیش رہا، وہ کانگریس سے ٹی آر ایس میں شامل ہونے والے ارکان اسمبلی کے خلاف کارکنوں میں ناراضگی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کانگریس سے انحراف کر کے ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرنے والے 12 ارکان اسمبلی کو ان کے انتخابی حلقوں میں ٹی آر ایس قائدین اور کیڈر کی تائید حاصل نہیں ہے ، جس کے نتیجہ میں انتخابی نتائج پر اثر پڑسکتا ہے ۔ ٹی آر ایس قائدین کو اس بات پر اعتراض ہے کہ کانگریس سے ارکان اسمبلی کو شامل کرتے ہوئے ان کے ساتھ ناانصافی کی گئی۔ اسمبلی ٹکٹ کے خواہاں قائدین ایک طرف مایوس ہیں تو دوسری طرف کیڈر کو اس بات کا دکھ ہے کہ رکن اسمبلی ٹی آر ایس سے زیادہ کانگریس سے آئے ہوئے اپنے حامیوں پر بھروسہ کر رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ تمام 12 ارکان اسمبلی کو متعلقہ حلقوں میں ٹی آر ایس قائدین اور کیڈر کی ناراضگی کا سامنا ہے ۔ کولا پور کانگریس کے ٹکٹ پر منتخب ہوکر ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرنے والے بی ہرش وردھن ریڈی کو مقامی سابق وزیر اور سابق رکن اسمبلی جوپلی کرشنا راؤ سے مخالفت کا سامنا ہے ۔ جوپلی کرشنا راؤ کے حامی بلدی انتخابات میں رکن اسمبلی کے ساتھ دکھائی نہیں دیئے ۔ یلا ریڈی ، تانڈور ، یلندو ، مہیشورم ، بھوپال پلی اور دیگر اسمبلی حلقوں میں موجود ٹی آر ایس کے سابق ارکان اسمبلی نے انتخابی مہم میں سرگرمی سے حصہ نہیں لیا۔ کانگریس سے شمولیت اختیار کرنے والے ارکان اسمبلی کو اپنے حلقوں میں پہلے سے موجود سابق ارکان اسمبلی اور سینئر قائدین کی مخالفت اور ناراضگی کا سامنا ہے۔ پارٹی کے اندرونی حالات کو دیکھتے ہوئے پیش قیاسی کی جارہی ہے کہ 120 میونسپلٹیز اور 9 میونسپل کارپوریشنوں پر قبضہ کرنا ٹی آر ایس کے لئے آسان نہیں ہوگا۔ ٹی آر ایس قائدین کو اس بات کا اعتراف ہے کہ حالیہ عرصہ میں تلنگانہ میں کانگریس کے موقف میں بہتری آئی ہے۔ انتخابی وعدوں کی تکمیل میں ناکامی اور بلدی علاقوں کے مسائل کو کانگریس نے انتخابی موضوع بنایا جس کے مثبت نتائج دیکھے گئے۔