راج دیپ سردیسائی
’’اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی‘‘ یہ ڈائیلاگ فلم ’’شعلے‘‘ میں اداکار اے کے ہنگل نے بولا تھا اور وہ ڈائیلا اس قدر مشہور ہوا کہ اسے اے کے ہنگل کا تاریخی ڈائیلاگ کہا جانے لگا اور آج بھی وہ ڈائیلاگ زبان زدِ خاص و عام ہے۔ اُس فلم میں دکھایا گیا کہ کس طرح اچانک سناٹا چھا جاتا ہے۔ صرف قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ ویسا ہی سناٹا بلقیس بانو اجتماعی عصمت ریزی و قتل کیس کے مجرمین کی رہائی کے بعد ہمارے ملک میں چھا گیا ہے۔ حکومت گجرات نے خواتین کی اجتماعی عصمت ریزی اور کم از کم 14 افراد بشمول 4 خواتین اور 4 بچوں کے زانیوں اور قاتلوں کو عام معافی کے تحت رہا کردیا۔ یہ قیدی عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔ ان خاطیوں کی سزا حکومت ِ گجرات کی جانب سے قائم کی گئی کمیٹی نے معاف کی۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان مجرمین نے کوئی معمولی جرم نہیں کیا تھا بلکہ نہتے و بے بس لوگوں کو قتل کردیا تھا۔ خواتین کی عزتیں تار تار کردی تھیں۔ ان لوگوں کی رہائی کے بعد اس کے خلاف مومی شمعوں کا احتجاج نہیں ہوا۔ کسی نے دھرنا منظم نہیں کیا اور نہ ہی سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ آپ کو یاد دلادوں کہ قومی دارالحکومت دہلی میں 16 ڈسمبر 2012ء کو ایک چلتی بس میں ایک طالبہ کی اجتماعی ریزی کی گئی تھی اور زانیوں نے نہ صرف اس کے ساتھ منہ کالے گئے تھے بلکہ بری طرح سے اسے زخمی بھی کردیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد دہلی میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ حکومت اور پولیس کے خلاف نعرے لگائے، زانیوں کو سزائے موت دینے پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ کیا لیکن بلقیس بانو اور دیگر خواتین کی اجتماعی عصمت ریزی اور قتل کے مجرمین کو جب معافی دی گئی تب ایسے مناظر کہیں دیکھتے میں نہیں آئے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ لوگ بلقیس بانو کیس کے مجرمین کی رہائی پر راضی ہیں۔ ایسے زانیوں اور قاتلوں کی رہائی سزاؤں کی معافی پر انہیں کوئی اعتراض نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ملک کی اعلیٰ قیادت نے بھی اس ظلم و جبر اور ناانصافی کے خلاف اپنا منہ نہیں کھولا۔ ان مجرمین کی رہائی ایک ایسے وقت عمل میں آئی جب سارا ملک اپنی آزادی کی 75 ویں سالگرہ بڑے جوش و خروش سے منا رہا تھا اور دہلی کے تاریخی لال قلعہ کی فصیل سے وزیراعظم اپنے روایتی پرجوش انداز میں ’’ناری شکتی‘‘ (خواتین کی طاقت و اہمیت) پر قوم کو پیام دے رہے تھے اور شہریوں کو یہ یاد دلا رہے تھے کہ کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کرتا جب تک وہاں خواتین کو باعزت مقام عطا نہیں کیا جاتا۔ خواتین کا کوئی احترام نہیں کیا جاتا۔ وزیراعظم کے اس خطاب کے چند گھنٹوں بعد ہی گجرات کی ایک جیل سے اجتماعی عصمت ریزی اور معصوم انسانوں بشمول شیرخوار بچوں کے قاتلوں کو معافی دیتے ہوئے رہا کردیا گیا اور شرم کی بات یہ رہی کہ وشوا ہندو پریشد کی گودھرا یونٹ نے اپنے ہیروز کا گلپوشی کرتے ہوئے استقبال کیا۔ شرم کی بات یہ رہی کہ جب یہ زانی اور قاتل جیل سے باہر آئے، ان کے چہروں پر افسوس و ندامت کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیئے جبکہ ان قیدیوں کی سزائے عمر قید معاف کرنے کا جائزہ لینے کیلئے قائم کردہ کمیٹی میں شامل بی جے پی کے ایک رکن اسمبلی نے پرمسرت انداز میں مجرمین کی یہ کہتے ہوئے ستائش کی کہ وہ تمام کے تمام سنسکاری برہمن (مہذب و معتبر باکردار برہمن) ہیں۔ دوسری طرف مودی حکومت نے اس معاملے میں بالکل خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ شاید وہ گجرات میں 2002ء کے دوران جو کچھ بھی ہوا، اس پر شرمندہ تھی یا پھر اقتدار کی مجبوری نے اس کا منہ بند رکھا ہو۔ غرض مرکزی حکومت نے اس بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ بی جے پی کے کسی سینئر وزیر اور بات بات پر ٹی وی چیانلوں پر آنے والے ترجمانوں نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ یہاں تک کہ سمرتی ایرانی کی زبان سے بھی ایک لفظ نہیں نکل پایا۔ وہ مرکزی وزیر بہبودیٔ خواتین و اطفال کے ذمہ دار عہدہ پر فائز ہیں۔ ان کے پاس الفاظ کی کوئی کمی نہیں، معمولی مسئلہ پر بھی بولنے سے گریز نہیں کرتی لیکن اجتماعی عصمت ریزی اور قتل کے مجرمین کو معافی دینے یا رہا کرنے کے معاملے میں انہوں نے اپنی زبان سے ایک لفظ ادا کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ قومی کمیشن برائے خواتین (NCW) نے بھی کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ یہ وہی NCW ہے جس نے کانگریس لیڈر ادھیر رنجن چودھری کو حال ہی میں اس وقت شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا جب انہوں نے صدرجمہوریہ دروپدی مرمو کا راشٹرپتنی کے طور پر حوالہ دیا تھا۔ قومی کمیشن برائے خواتین اس پر برہم ہوئی۔ بتایا جاتا ہے کہ قومی انسانی حقوق کمیشن نے اس مسئلہ پر تبادلہ خیال کیلئے ایک اجلاس طلب کیا لیکن برسرعام اس نے بھی کوئی مداخلت نہیں کی۔ اس کی صدرنشین نے جو سپریم کورٹ کے سابق جج ہیں، ماضی میں وزیراعظم نریندر مودی کی یہ کہتے ہوئے ستائش کی تھی کہ وہ ایک ہر فن مولا اور باصلاحیت شخص ہیں۔ اہم قومی جماعتوں میں صرف کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں نے حکومت گجرات کے فیصلہ اور اقدام پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ اگرچہ بائیں بازو کی طاقت محدود ہوکر رہ گئی ہے، لیکن موجودہ حالات میں کانگریس کا ردعمل قابل تعریف رہا۔ گاندھی نگر سے زیادہ دہلی میں اس کی گونج سنائی دی۔ عام آدمی کو جو بات سب سے زیادہ کھٹکتی رہی، وہ عام آدمی پارٹی کی واضح خاموشی رہی جو 2012ء کے احتجاج کے دوران سب سے آگے رہی لیکن اُس واقعہ کے 10 برس بعد ایک رضاکارانہ طاقت سے ایک قومی پارٹی میں تبدیل ہونے کے باوجود اس نے بلقیس بانو ریپ کیس کے مجرمین کو رہا کئے جانے پر ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا۔ شاید اس کی نظریں گجرات کے متوسط ہندو طبقہ کے ووٹوں پر ہے۔ وہ گجرات اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے کیلئے پر تول رہی ہے۔
سپریم کورٹ جس نے 2012ء (نربھیا اجتماعی عصمت ریزی) کیس میں جلد سے جلد انصاف رسانی کو یقینی بنانے فاسٹ ٹریکنگ کی راہ اپنائی تھی، ابتداء میں خود کو اس معاملے سے دور رکھنے کی کوشش کی، بعد میں اس پٹیشن کو قبول کیا جس میں 15 اگست 2022ء کو اجتماعی عصمت ریزی اور قتل کے مجرمین کی رہائی کو چیلنج کیا گیا تھا۔ جاریہ سال مئی کے اپنے حکم میں عدالت نے حکومت گجرات کے اختیار تمیزی پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ 1992ء کی رولنگ اور فیصلوں کی بنیاد پر قیدیوں کو معاف کرے۔ 2014ء کی پالیسی میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ معافی دیئے جانے والے قیدیوں میں عصمت ریزی کے مجرمین کو شامل نہ کیا جائے۔
اب چلتے ہیں میڈیا کی طرف، میڈیا نے 2012ء نربھیا ریپ کیس کے احتجاجی مظاہروں کے کوریج میں کوئی کمی نہیں کی، پل پل کی خبر سے عوام کو واقف کروایا، لیکن جب بات بلقیس بانو کے مجرمین کی رہائی کی آئی تو اکثر میڈیا گھرانوں نے اس واقعہ پر توجہ ہی نہیں دی اور اس کا احاطہ بھی کیا تو ایک معمولی خبر کی طرح کیا۔ حد تو یہ ہے کہ شہریوں نے بھی بلقیس کے حق میں مہم نہیں چلائی۔ شہریوں اور شہری تنظیموں نے 2002ء میں گجرات کے ایک دور دراز رادھیک پور میں پیش آئے درندگی کے واقعہ کو ایسے نظرانداز کردیا جیسے نئے ہندوستان میں اس کی یادوں سے خود کو دور کرلیا ہو۔ 2012ء کے نربھیا واقعہ اور بلقیس بانو کے ساتھ پیش آئے المناک واقعہ میں دیکھے جارہے متضاد ردعمل سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں ریاست اور مہذب سماج کی سوچ و فکر میں کتنی تبدیلی آچکی ہے۔ اب تو اکثریتی سیاست نے اسٹابلشمنٹ کو چیلنج کرنے، اس پر ناراضگی ظاہر کرنے والی آوازوں کو ایک طرح سے دبا دیا ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ کسی بھی انتخابی فائدہ کیلئے ہندو شناخت کی اہمیت ضروری ہے اور یہ طاقتیں اس شناخت کو مستحکم کرنے کی خواہاں ہیں۔ اس طرح کا رجحان ظالمانہ ووٹ بینک سیاست کے سواء کچھ نہیں۔ اگر کانگریس 1980ء میں شاہ بانو کیس میں مسلم علماء کی خوشنودی کی خاطی پائی گئی تو بی جے پی کی بھی اکثریتی سیاست کی خوشنودی اب بلقیس بانو کیس میں اس کے دوغلے پن سے ظاہر ہوچکی ہے۔ اب تو سیاسی مقصد کی حد سے زیادہ سرگرمی اور تعصب و جانبداری کے باعث وہ ادارے جس کا کام ہی متاثرین کی دادرسی کرنا، انہیں راحت پہنچانا تھا، مصلحت کا شکار ہوکر اپنی اہمیت گنوا بیٹھے ہیں۔ اس کی مثال حکومت کی وہ کمیٹی ہے جس میں بی جے پی کے دو ارکان اسمبلی کو شامل کیا گیا ہے، ایسے میں بلقیس بانو کو کیا منصفانہ سماعت کا موقع دیا جائے گا؟ 2016ء میں راجیو گاندھی کے قاتل سری ہرن کے کیس میں ایک دستوری بینچ نے اشارہ دیا تھا کہ معافی کیلئے حکومت کی مرضی بھی لازمی ہے لیکن گجرات میں اس کے برعکس ہوا، لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ ہمارے قومی ضمیر کو کیا ہوگیا، کئی بااثر شہری 2012ء نربھیا واقعہ کی بہ نسبت بلقیس بانو کیلئے انصاف کی بات کرنے سے گھبرا رہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب ہندوستانی معاشرہ تقسیم ہوچکا ہے اور انصاف کو تعصب و جانبداری کی عینک سے دیکھا جارہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بلقیس بانو کے مسلمان ہونے کے باعث اس کے ساتھ کی گئی ناانصافی پر خاموشی اختیار کی جارہی ہے۔ اب تو سوشیل میڈیا پر دائیں بازو کے عناصر بڑی بے شرمی سے پوچھنے لگے ہیں کہ جب ایک ہندو خاتون کا ریپ ہوتا ہے تو اسے ہراساں کیا جاتا ہے تو آپ کہاں ہوتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ بلقیس بانو تو ایک مخصوص ذہنیت کا شکار ہوئی ہے اور وہ آخری نہیں جس کے ساتھ ایسا ہوا ہے۔ ہمارے ایک دوست کا کہنا تھا ’’آپ 2002ء تشدد اور بلقیس بانو کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیں، 20 سال ہوچکے ہیں، یہ وقت آگے بڑھنے کا ہے‘‘ اُن کے اس غیرسماجی مشورہ پر میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ کیا وہ یہی مشورہ بلقیس بانو سے نظریں ملاکر اسے دے سکتے ہیں؟