راہول گاندھی … انوراگ ٹھاکر کی بدزبانی
یوپی اور مدھیہ پردیش … دینی مدارس نشانہ
رشیدالدین
بزرگوں کی نصیحت مشہور ہے کہ انسان بھلے ہی کھانے کا لقمہ بڑا کھائے لیکن زبان سے بڑی بات نہ کرے۔ بچپن میں اسکول ٹیچرس اور گھر میں بزرگ افراد کی نصیحت کا مقصد بچوں کو کم عمری سے ہی غرور اور تکبر سے بچانا ہوتا ہے۔ زیادہ تر زوال کی وجوہات غرور اور تکبر ہوتی ہیں۔ دنیا نے فرعون سے لے کر ہٹلر تک کا انجام دیکھا ہے لیکن باوجود اس کے سماج کے ہر شعبہ میں آج بھی فرعون اور ہٹلر کے باقیات دکھائی دیتے ہیں جو خود کو ناقابل تسخیر سمجھتے ہیں۔ لیکن اُن کا انجام دوسروں کے لئے عبرت بن سکتا ہے۔ سیاسی میدان میں آزادی کے بعد سے ملک نے کئی ایسے قائدین کو دیکھا جن کے زوال اور شکست کا کسی کو گمان بھی نہیں تھا لیکن اُن کے نام تاریخ کے صفحات میں کہیں گم ہوگئے۔ وہ قوم اور حکمراں کہاں ہیں جن کی مملکت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اتنا سب کچھ درس عبرت ہونے کے باوجود آج بھی ایسے قائدین کی کمی نہیں جو اپنے انجام سے بے پرواہ دوسروں پر حملہ کرنے میں سکون اور راحت محسوس کرتے ہیں۔ ملک کے تازہ ترین حالات کا جائزہ لیں تو غرور اور تکبر کے سرنگوں ہونے کی تین مثالیں ہیں۔ قومی سطح پر نریندر مودی اور ریاستوں کی سطح پر کے چندرشیکھر راؤ (تلنگانہ) اور وائی ایس جگن موہن ریڈی (آندھراپردیش) شامل ہیں۔ لوگ کہیں گے کہ کے سی آر اور جگن موہن ریڈی کی شکست تو ہر کسی کے سامنے ہے لیکن تیسری بار وزارت عظمیٰ پر فائز نریندر مودی کا زوال کہاں اور کیسے ہوا؟ یقینا نریندر مودی تیسری مرتبہ وزیراعظم تو بن گئے لیکن یہ کرسی بیساکھیوں پر ٹکی ہے۔ نریندر مودی اور اُن کی پارٹی بی جے پی کو 2 میعادوں میں واضح اکثریت حاصل تھی لیکن اِس مرتبہ وہ اکثریت سے محروم ہوگئے۔ بیساکھیوں (نتیش کمار + چندرابابو نائیڈو) کے سہارے حکومت قائم کی گئی۔ اکثریت سے محرومی زوال نہیں تو اور کیا ہے۔ کمزور حکومت کے اثرات مودی کی باڈی لینگویج اور حکومت کی سست روی سے نمایاں ہیں۔ نریندر مودی کی وہ گھن گرج کہاں گئی جس کا جادو ملک پر چھایا ہوا تھا۔ قانونِ قدرت یہی ہے کہ وہ ہر اُس شخص کو زوال سے دوچار کرتا ہے جو لفظ ’’میں‘‘ ادا کرتا ہے کیونکہ اِس لفظ کے سزاوار صرف خدائے تعالیٰ ہیں۔ نریندر مودی کے غرور کو شکست کے باوجود حکومت اور بی جے پی میں شامل اُن کے بعض حواری ابھی بھی احمقوں کی جنت میں ہیں۔ گزشتہ دو میعادوں میں سمرتی ایرانی مودی بھکتی میں غرق تھیں اور کانگریس پر حملوں کے لئے اُن کو ہمیشہ آگے رکھا گیا۔ غرور کا سر آخر نیچا ہوا اور راہول گاندھی کو شکست دینے والی اِس خاتون کو حالیہ چناؤ میں کانگریس کے ایک عام کارکن نے ہرادیا۔ پارلیمنٹ اور پارٹی سے سمرتی ایرانی غائب ہیں جو اُن کے سیاسی زوال کی علامت کہا جارہا ہے۔ بی جے پی کو انوراگ ٹھاکر کی شکل میں ایک ہتھیار مل گیا جو کانگریس پارٹی بالخصوص راہول گاندھی کو نشانہ بنانے میں اخلاق کی تمام حدود سے تجاوز کرچکے ہیں۔ مودی نے تیسری میعاد میں انوراگ ٹھاکر کو وزارت میں شامل نہیں کیا لیکن وہ اپنے نمبر بڑھانے کے لئے مودی گن گان میں مصروف ہیں۔ راہول گاندھی کو نشانہ بناتے ہوئے وہ مودی کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ کبھی نہ کبھی کابینہ کے دروازے اُن کیلئے کھل جائیں۔ انوراگ ٹھاکر نے ذات پات پر مبنی مردم شماری سے متعلق راہول گاندھی کے مطالبہ پر تنقید کرتے ہوئے ریمارک کیاکہ جن کو خود اپنی ذات کا پتہ نہیں وہ مردم شماری کی بات کررہے ہیں۔ انوراگ ٹھاکر کے اِس جملہ پر اُن کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے تھی لیکن جن کو کارروائی کا اختیار ہے وہ خود یہی چاہتے ہیں۔ اسپیکر لوک سبھا کی ذمہ داری تھی کہ وہ غیر پارلیمانی الفاظ کو ریکارڈ سے حذف کرتے۔ انوراگ ٹھاکر نے پنڈت نہرو، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کو او بی سی تحفظات کا مخالف قرار دیا۔ حیرت تو اِس بات پر ہے کہ نریندر مودی نے سوشل میڈیا میں انوراگ ٹھاکر کے بیان کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے اپنے دل کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے۔ مودی کے اِس اقدام سے وہ خود بے نقاب ہوگئے کیونکہ جو بات وہ نہیں کہہ سکتے تھے، اُسے انوراگ ٹھاکر نے ادا کردیا۔ انوراگ ٹھاکر خود کو شائد فلم شعلے کے ’’ٹھاکر‘‘ سمجھ رہے ہیں جو دونوں ہاتھوں سے محرومی کے باوجود گبر سنگھ سے مقابلہ کرتے ہیں۔ ٹھیک اِسی طرح کابینہ میں جگہ نہ ملنے کے باوجود وہ مودی کو خوش کرنے راہول گاندھی پر حملے کررہے ہیں۔ انوراگ ٹھاکر کے متنازعہ بیانات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ یہ وہی انوراگ ٹھاکر ہیں جنھوں نے شاہین باغ کے احتجاجیوں کے بارے میں کہا تھا کہ ’’دیش کے اِن غداروں کو، گولی مارو کو‘‘۔ مسلمانوں سے نفرت کا اُنھوں نے بارہا اظہار کیا ہے۔ انوراگ ٹھاکر مسلمانوں پر گولی تو نہیں چلا سکے لیکن نریندر مودی نے کابینہ میں شامل نہ کرتے ہوئے اُنھیں زخمی کردیا۔ بعد میں یہ کہہ دینے سے گالی کا اثر کم نہیں ہوگا کہ میں نے راہول گاندھی کا نام نہیں لیا تھا۔ دنیا جانتی ہے کہ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کس کا ایجنڈہ ہے۔ ویسے بھی راہول گاندھی اور انوراگ ٹھاکر میں کوئی تقابل نہیں۔ انوراگ ٹھاکر کا وہ لیول نہیں کہ وہ اُس خاندان کے فرد کو نشانہ بنائیں جن کے دو سابق وزرائے اعظم نے ملک کے لئے اپنی جان قربان کردی۔
لوک سبھا میں انوراگ ٹھاکر کی زبان درازی پر وزیراعظم اور اُن کے ساتھیوں کی خاموشی افسوسناک ہے۔ ویسے بھی اِسی پارلیمنٹ میں مسلم ارکان پارلیمنٹ کو دہشت گرد سے مخاطب کرنے کی مثالیں موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب نریندر مودی نے خود مسلمانوں کو اپنی تقاریر میں نشانہ بنایا ہو تو پھر انوراگ ٹھاکر کے لئے کیا رکاوٹ ہے۔ حالیہ لوک سبھا چناؤ کی انتخابی مہم میں نریندر مودی نے مسلمانوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے والے، ملک کے اثاثہ جات پر قبضہ کرنے والے، حتیٰ کہ دیگر طبقات کے حقوق سلب کرنے والے دہشت گردوں جیسے القاب سے نوازا تھا۔ وزیراعظم سابق میں مسلمانوں کو اُن کے لباس سے پہچاننے کا عوام کو مشورہ دے چکے ہیں۔ چیف منسٹر گجرات سے وزارت عظمیٰ تک مخالف مسلم بیانات اور عملی اقدامات کی طویل تاریخ ہے۔ نریندر مودی کی خوشنودی میں بے قابو انوراگ ٹھاکر کو سمرتی ایرانی سے سبق لینا چاہئے۔ وہ دن دور نہیں جب یہی بی جے پی انوراگ ٹھاکر کو گوشۂ گمنامی میں جھونک دے گی۔ مرکز میں اکثریت سے محرومی اور کمزور حکومت کی تشکیل کے باوجود زمینی سطح پر جارحانہ فرقہ پرست ایجنڈہ برقرار ہے۔ حکومت کی جانب سے بھلے ہی کوئی متنازعہ فیصلے نہیں کئے جارہے ہیں لیکن بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں مسلمانوں کو مختلف عنوانات کے تحت نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اترپردیش اور مدھیہ پردیش میں دینی مدارس کو نشانہ بنایا جارہا ہے تاکہ مسلمان دین، شریعت اور اپنی تاریخ سے ناواقف رہیں۔ اترپردیش میں حالیہ لوک سبھا چناؤ میں یوگی آدتیہ ناتھ کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ریاست میں تقریباً 35 لوک سبھا نشستوں پر بی جے پی ناکام ہوگئی۔ اترپردیش کے رائے دہندے یوگی آدتیہ ناتھ کے فرقہ وارانہ ایجنڈہ سے عاجز آچکے ہیں۔ لوک سبھا نتائج کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کا وزیراعظم بننے کا خواب چکنا چور ہوگیا اور اِسی بوکھلاہٹ کے تحت وہ آسان نشانے کے طور پر مسلمانوں اور اُن کے دینی مدارس کے خلاف اقدامات کررہے ہیں۔ یوگی نے اترپردیش میں مسلمانوں کی بے باک اور بے لوث قیادت کو ختم کرنے کیلئے مقدمات کا سہارا لیا۔ اعظم خان جو کبھی ہندوستان کے مسلمانوں کی آواز تھے، آج وہ خود اپنے مسائل میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ اعظم خان اور اُن کے خاندان کو کئی ایک مقدمات میں پھانس کر اُن کی جائیدادوں اور محنت سے قائم کردہ یونیورسٹی کو نشانہ بنایا گیا۔ اعظم خان کا قصور بس اتنا ہے کہ اُنھوں نے مسلمانوں کے حق میں آواز اُٹھائی اور بی جے پی کو چیلنج کیا۔ سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی میں موجود مسلم قائدین کا یکے بعد دیگرے صفایا کردیا گیا تاکہ اترپردیش کے مسلمانوں کے حوصلوں کو پست کیا جاسکے۔ اگر کسی پر مقدمات ہیں تو سزا دینے کا اختیار عدالت کو ہے لیکن یہاں یوگی آدتیہ ناتھ خود سزائے موت کا فیصلہ سنارہے ہیں۔ اترپردیش میں 8 ہزار سے زائد دینی مدارس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں منتقل کرنے کی ہدایت دی گئی۔ سرکاری اسکولوں کے ہندوتوا ایجنڈہ سے ہر کوئی واقف ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے یوگی آدتیہ ناتھ سے ملاقات کرتے ہوئے دینی مدارس کے خلاف نوٹس واپس لینے کی درخواست کی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ ذمہ دار یوگی آدتیہ ناتھ سے رجوع ہونے کے بجائے سپریم کورٹ سے رجوع ہوتے کیونکہ دستور ہند نے مسلمانوں کو اپنے ادارے قائم کرنے اور چلانے کی اجازت دی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ سے انصاف کی اُمید کرنا فضول ہوگا۔ ملک کی عدلیہ آج بھی غیر جانبدار اور آزاد ہے۔ خاص طور پر سپریم کورٹ نے کئی اہم معاملات میں دستور کی بالادستی کو قائم رکھا۔ مذہبی اداروں سے یوگی آدتیہ ناتھ کو خوف اِس لئے ہے کہ دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں اور وہاں جو تعلیم دی جاتی ہے وہ نیک اور صالح انسان بننے کے علاوہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی ترغیب ہوتی ہے۔ مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کی اہم وجہ مزاحمت کی کمی ہے۔ منورؔ رانانے حکومتوں کیلئے یہ شعر کہا ہے ؎
بلندی دیر تک کس شخص کے حصے میں رہتی ہے
بہت اونچی عمارت ہر گھڑی خطرہ میں رہتی ہ