بلوچستان نے پابندیوں کے باوجود 78واں یومِ آزادی منایا

   

کوئٹہ، 11 اگست (آئی اے این ایس) بلوچستان نے پیر کو 78واں یومِ آزادی منایا، ایک ایسی سالانہ روایت کو جاری رکھتے ہوئے جسے بلوچ انسانی حقوق کے گروپ پاکستان کے خطے پر غیر قانونی قبض‘کے خلاف علامت قرار دیتے ہیں۔ بلوچ آزادی کی جدوجہد کی تاریخی بنیادیں 1947 سے جڑی ہیں، جب برصغیر کی تقسیم کے بعد ریاستِ قلات نے مختصر عرصے کے لیے آزادی کا اعلان کیا۔ تاہم 1948 میں پاکستان نے زبردستی اس خطے کو ضم کر لیا، جس کی بلوچ قوم پرست آج تک مخالفت کرتے ہیں۔ یومِ آزادی کی تقریبات کو دبانے کی کوشش میں پاکستانی فورسز نے بلوچستان میں پندرہ دن کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی، جسے 6 کروڑ بلوچ عوام نے مسترد کر دیا ہے۔ بلوچ کے سرکردہ انسانی حقوق کے محافظ میر یار بلوچ نے الزام لگایا کہ پاکستانی فوج بلوچستان میں کسی قانونی اختیار کے بغیر، قانون یا انصاف نہیں بلکہ لالچ، جبر اور بلوچ شناخت کو مٹانے کی خواہش کے تحت‘‘ موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے جرائم بلوچوں تک محدود نہیں بلکہ یہ ریاست بنگلہ دیش، افغانستان اور فلسطین میں بھی جنگی جرائم کی مرتکب ہو چکی ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی کا عالمی گاڈ فادر قرار دیتے ہوئے میر نے الزام لگایا کہ یہ انتہا پسند پیدا کر رہا ہے، جنگجوؤں کو تربیت دے رہا ہے، جنگی مجرموں کو پناہ دے رہا ہے‘‘ اور دنیا کو بلیک میل کرنے کے لیے ایٹمی دھمکی استعمال کرتا ہے۔ انہوں نے پاکستانی آرمی چیف عاصم منیر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں مکمل ریاستی تحفظ فراہم کیا، جب کہ ہزاروں بے گناہوں کا قتل عام کیا جا رہا تھا۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ منیر جیسے لوگوں سے ہاتھ ملانے کے بجائے انہیں انسانیت کے خلاف جرائم‘‘ پر کٹہرے میں لائے۔ آزادی کی جدوجہد یاد کرتے ہوئے میر نے کہا ہزاروں برسوں سے ہمارے پہاڑ، صحرا اور سمندر بلوچ عوام کی بہادری کے گواہ ہیں، جو منگول حملوں سے لے کر برطانوی استعماری تسلط تک اپنی سرزمین کے محافظ رہے۔