بلڈرس ، اسکولس اور تعمیراتی اشیاء کے فروخت کنندگان نشانہ پر !

,

   

حیدرآباد۔26ڈسمبر(سیاست نیوز) شہر حیدرآباد میں گذشتہ دنوں جی ایس ٹی کے دھاؤوں کے دوران جو ٹیکس چوری کے انکشاف ہوئے ہیں اس کے بعد شہر حیدرآباد میں جی ایس ٹی انٹلیجنس کو متحرک کرنے کے اقدامات کئے جانے لگے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ آئندہ ماہ جی ایس ٹی اہلکاروں کی جانب سے کمرشیل ٹیکس اور دیگر محکمہ جات پر مشتمل عہدیدارو ںکی ٹیم کی تشکیل کے ذریعہ بلڈرس اور دیگر ایسے تجارتی اداروں کو نشانہ بنائے گی جو بہ اعتبار دیگر تجارتی اداروں کے خام تجارت نہیں کرتے بلکہ ان کے دفاتر کے ذریعہ تجارتی سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں۔جی ایس ٹی میں خدمات انجام دینے والے ایک اعلی عہدیدار نے بتایا کہ شہر حیدرآباد میں اسکولوں اور اسٹیل کے تاجرین پر کئے گئے دھاؤوں کے دوران جو انکشاف ہوئے ہیں اس کے بعد اب جی ایس ٹی کی نظریں خام تجارتی اداروں یا اجناس فروحت کرنے والوں سے ہٹ چکی ہے اور وہ اب ان اداروں کو نشانہ بنانے کے متعلق غور کررہے ہیں جو بظاہر جی ایس ٹی ادا کر رہے ہیں لیکن اس کی آڑ میں کروڑہا روپئے کی ٹیکس چوری کے مرتکب بھی بن رہے ہیں۔بتایاجاتا ہے کہ جی ایس ٹی چوری کے نئے طریقہ کار کے انکشاف کے بعد عہدیداروں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب خام کچ دھات کی فروخت سے لوہے کی تیاری اور اس لوہے کی بلڈرس کو فروخت تک کے جی ایس ٹی کی جانچ کی جائے اور اسی طرح ان لوگوں کے جی ایس ٹی کی بھی مکل جانچ کی جائے جو کہ جی ایس ٹی وصول کررہے ہیں لیکن حکومت کو ادا کرنے میں ناکام ہیں اور وصول کئے گئے جی ایس ٹی کی چوری کے مرتکب بن رہے ہیں۔جی ایس ٹی انٹلیجنس عہدیدارو ںنے بتایا کہ شہر حیدرآباد سے کارپوریٹ انداز میں خدمات انجام دے رہے اداروں کی جانب سے بیرونی زر مبادلہ کی ترسیل اور وصولی کے علاوہ تیار کردہ اشیاء کی فروخت کی بھی جانچ کی جا رہی ہے کیونکہ بیرونی ممالک کے آرڈرس کے نام پر جی ایس ٹی کی چوری کی راہیں ہموار کی جا رہی ہیں اور اندرون ملک موصول ہونے والے آرڈرس کو بیرون ملک منتقل کرتے ہوئے اور کسی اور ملک سے لائے گئے سامان کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جو کہ دھوکہ دہی کے مترادف ہے۔جی ایس ٹی عملہ کا کہناہے کہ بڑے کارپوریٹ ادارو ںکی جانب سے کی جانے والی ان دھاندلیوں کے انکشاف کے بعد کارپوریٹ تعلیمی اداروں‘ صنعتکاروں اوربلڈرس کے علاوہ تعمیری اشیاء فروخت کرنے والے تجارتی اداروں پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے کیونکہ ان ادارو ںکی جانب سے بڑے پیمانے پر جی ایس ٹی سے بچنے کیلئے بغیر رسید کے سامان کی منتقلی عمل میں لائی جا رہی ہے اور دیگر ریاستوں سے شہر منتقل کئے جانے والی اشیاء کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور قیمتوں میں ردوبدل کرتے ہوئے انہیں جی ایس ٹی میں کمی کی طرح پیش کیا جا رہاہے اور جب یہ اشیاء بازار میں فروخت کے لئے پہنچ رہی ہیں تو ان کی حقیقی قیمت ان پر چسپاں کی جا رہی ہے جب کہ صنعتی ادارہ سے نکلتے وقت ان اشیاء کی قیمت کو اس قدر کم کیا جا رہاہے کہ اس پر جی ایس ٹی میں چوری سے بھاری فائدہ حاصل ہوسکے اور صنعت کارکے ساتھ ہول سیل دونوں کو اس کا فائدہ حاصل ہو۔