برندا کرت
دہلی کے جہانگیر پوری میں بلڈوزروں نے دُکانات کو زمین کے برابر کردیا۔ مسجد کے اگلا حصہ کو مسمار کردیا اور کئی لوگوں کا ذریعہ معاش تباہ کرکے رکھ دیا۔ یہ اچھا ہوا کہ سپریم کورٹ نے بروقت منصفانہ مداخلت کی اور پھر انہدامی کارروائی کو عارضی طور پر روک دیا گیا۔ انہدامی کارروائی کے بعد سالیسٹر جنرل نے جو دلائل اور جواز پیش کئے، ان سے مرکزی حکومت کا رویہ کافی حد تک ظاہر ہورہا تھا۔ سالیسیٹر جنرل کا بلدیہ کی انہدامی کارروائی کو جائز اور منصفانہ بتاتے ہوئے یہ کہنا تھا کہ اس انہدامی کارروائی کا 16 اپریل کے فرقہ وارانہ تصادم سے کوئی تعلق نہیں تھا اور یہ کہ تجاوزات (غیرقانونی تعمیرات) کو ہٹانا ایک معمول کا عمل تھا۔ انہوں نے دوسری دلیل یہ پیش کی کہ اس کارروائی میں فرقہ وارانہ یا انتخابی طور پر کسی کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی کیونکہ انہدامی کارروائی اقلیتوں تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ ہندوؤں کی دُکانات کو بھی منہدم کیا گیا۔ سالیسیٹر جنرل نے تیسری دلیل یہ پیش کی کہ بلدیہ نے جو بھی کارروائی کی، وہ غیرقانونی نہیں تھی کیونکہ کارروائی سے قبل کچھ لوگوں کو نوٹس دی گئی تھی اور مابقی کو نوٹس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ میرا مقصد و منشاء ان معاملات پر بحث کرنا نہیں ہے جو عدالت کے سامنے ہیں۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں دوسروں کے ساتھ میں خود ایک درخواست گزار ہوں لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ عدالتی مقدمہ کے باہر بھی ایک زندگی ہے۔ جہانگیر پوری میں بی جے پی کے زیرکنٹرول بلدیہ کی جانب سے کی گئی انہدامی کارروائی سے سینکڑوں لوگ متاثر ہوئے۔ ان کی روٹی روزی کے ذرائع چھین گئے۔
جہانگیر پوری کا علاقہ میرے لئے کوئی نیا نہیں ہے بلکہ میں جہانگیر پوری سے اس وقت سے واقف ہوں جب چار دہے قبل اسے بسایا گیا تھا۔ آپ کو یاد دلادوں کے ایمرجنسی کے دور میں دارالحکومت دہلی کی خوبصورتی میں اضافہ کے نام پر لاکھوں جھگی جھونپڑیوں کو زمین دوز کیا گیا اور بیشتر متاثرین کو بنجر زمین کے ٹکڑوں پر دوبارہ آباد کیا گیا جو اس وقت شیر کے کناروں پر تھے جن لوگوں کو وہاں بسایا گیا، ان میں مدناپور، دیناج پور اور مغربی بنگال کے چند دوسرے اضلاع کے سینکڑوں بنگالی مسلمان بھی شامل تھے جو جمنا کے کنارے جھونپڑیوں میں زندگی گزار رہے تھے۔ انہیں اس وقت کی حکومت نے جہانگیر پوری منتقل کردیا تھا اور ان میں سے زیادہ تر کو جھگی جھونپڑیوں کے مرکز سی بلاک میں پٹے دیئے گئے۔ اس بلاک کی گلیوں میں رہنے والے اکثر لوگ مسلمان ہیں لہٰذا جب میں نے سنا کہ بی جے پی رہنماؤں کی جانب سے انہیں جان بوجھ کر روہنگیائی اور بنگلہ دیشی بتایا جارہا ہے تب مجھے پتہ چلا کہ یہ بی جے پی کی جھوٹ بنانے والی فیکٹری کی کارستانی ہے اور جرت کی بات یہ ہے کہ دارالحکومت دہلی کے اقتدار پر فائز عام آدمی پارٹی کے قائدین بھی بی جے پی رہنماؤں کی زبان میں بات کرنے لگے۔ اس کے علاوہ ان لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ بی جے پی ہی تھی جس نے اس علاقہ میں بنگلہ دیشیوں اور روہنگیائی باشندوں کو بسایا، ایسے میں 20 اپریل کو بلڈورزوں کے ذریعہ جن کی روزی روٹی زمین دوز کردی گئی تھی، وہ بی جے پی اور عام آدمی پارٹی دونوں کیلئے غیرقانونی تارکین وطن تھے۔ ان غریبوں اور کمزوروں کا تعلق بنیادی طور پر مسلم برادری سے ہے اور یہ لوگ سچے ہندوستانی شہری ہیں لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے تو بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے قائدین جو کہتے ہیں، وہ سچ ہے تب بھی کیا انسانوں کے ساتھ ایسا غیرانسانی سلوک کیا جائے؟
اس معاملے میں دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ جہانگیر پوری اور سی بلاک میں برسوں میں کبھی فرقہ وارانہ نوعیت کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ستمبر 1978ء میں دہلی میں تاریخ کا خوفناک سیلاب آیا تھا اور اس سیلاب میں سب سے پہلے جہانگیر پوری شدید متاثر ہوئی تھی چونکہ سی بلاک نشیبی علاقہ ہے۔ اس لئے تباہی کا شکار ہوگیا، میں اس وقت شمالی دہلی میں ہی ٹیکسٹائل ٹریڈ یونین میں کام کررہی تھی۔ اس سیلاب میں ٹیکسٹائلز ملز اور صنعتی اکائیوں میں کام کرنے والے مزدور متاثر ہوئے تھے، اس وقت ہم نے ایک ریلیف کیمپ لگایا تھا اور ساری دہلی سے والینٹرس ان متاثرین کی مدد کیلئے آئے تھے۔ جہانگیر پوری کے سینکڑوں باشندوں نے جن میں ہندو اور مسلمان سب شامل تھے۔ مصیبت کی اس گھڑی میں ایک دوسرے کی مدد میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ یہ چالیس برس قبل کی بات ہے۔ 1984ء میں سکھ مخالف فسادات کے بعد سینکڑوں سکھ خاندان دہشت زدہ اور بے گھر ہوگئے تھے۔ وہ سکھ خاندان دوبارہ اے بلاک میں آباد ہوگئے۔ انہیں وہاں کبھی کسی مسئلہ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ گزشتہ ہفتہ حقائق جاننے والی ہماری ٹیموں کے ارکان نے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے مکینوں سے ملاقات کی۔ ان لوگوں نے جو خیالات ظاہر کئے، اس سے ایسا لگا کہ انسانیت اور بھائی چارگی کی روح اب بھی باقی ہے۔ اس کے باوجود ایک سوال ہمارے ذہنوں میں گردش کرتا ہے کہ 16 اپریل کو وہاں تشدد کیوں برپا ہوا؟ میڈیا نے حسب عادت اس واقعہ کو مختلف انداز میں پیش کیا لیکن بی جے پی نے جو ورژن پیش کیا، وہ یہ ہے کہ ہنومان جینتی کے موقع پر ہندوؤں کی ریالی یا جلوس پر اس وقت حملہ کیا گیا، جب وہ سی بلاک سے گذر رہی تھی اور ان پر پتھر برسائے گئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال نے سنگباری کرنے یا پتھر پھینکنے والوں کی مذمت کی اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ دہلی پولیس نے چیف منسٹر کجریوال کی پیروی کرتے ہوئے اس ضمن میں 27 افراد کی گرفتاری عمل میں لائی اور پولیس کی جانب سے جاری کردہ پہلی فہرست میں تمام گرفتار 14 افراد مسلمان تھے۔ اس طرح سارے ملک میں یہ تاثر دیا گیا کہ ہندو تہوار کے موقع پر نکالے گئے جلوس پر مسلمانوں نے حملہ کیا، سنگباری کی۔ یہ ورژن پوری طرح یکطرفہ ہے بلکہ سچائی کو چھپانے کا ایک پردہ ہے اور جھوٹ کے اس دبیز پردہ کے ذریعہ سچائی کو چھپانے کی کوشش کی گئی۔ واضح رہے کہ اس دن تین جلوس نکالے گئے تھے۔ ان میں سے دو جلوسوں کا اہتمام بنیادی طور پر مختلف بلاکس کے رہنے والوں نے کیا تھا۔ جلوس کے منتظمین نے ہماری ٹیموں کو بتایا کہ ان لوگوں نے گزشتہ ماہ جلوس نکالنے کی اجازت کیلئے درخواست دی تھی جس پر پولیس نے انہیں ان راستوں کے بارے میں بتایا تھا جن پر عمل کرنا تھا۔ ان جلوسوں میں کسی کو بھی کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا کیونکہ طئے شدہ راستوں کے مطابق پولیس کی جانب سے انتظامات کئے گئے اور زیادہ تر جلوس سہ پہر 3 بجے کے قریب منشتر ہوگئے۔ اس کے دو گھنٹوں بعد عینی شاہدین کے مطابق تقریباً 100 تا 150 نوجوانوں کا ایک گروہ مائیک اور ڈی جے کے ساتھ اس علاقہ میں جمع ہوا جہاں پر پہلے جلوسی منتشر ہوئے تھے۔ ان نوجوانوں میں سے کئی نوجوانوں کے ہاتھوں میں ننگی تلواریں اور لاٹھیاں تھیں۔ ان میں سے کم از کم دو نوجوانوں کو پستول لہراتے بھی دیکھا گیا۔ وہ جلوس مین روڈ پر جانے کی بجائے سی بلاک کی تنگ گلیوں میں داخل ہوکر مسجد کے سامنے رُک گیا اور توہین آمیز و اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے اور زور و شور کے ساتھ میوزک بجایا گیا۔ یہ جان بوجھ کر مسجد میں مسلمانوں کے جمع ہونے اور افطار کے موقع پر کیا گیا۔ پولیس نے خود کہا ہے کہ یہ جلوس غیرقانونی تھا کیونکہ اس کے پاس مطلوبہ اجازت نامے نہیں تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس جلوس کو اجازت کیوں دی گئی؟ پولیس غیرقانونی طور پر ہتھیار یا اسلحہ لے جانے پر پابندی سے متعلق آرمس ایکٹ کا استعمال کیوں نہیں کیا؟ میں نے یہی سوال اسپیشل کمشنر آف پولیس (لا اینڈ آرڈر) سے کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ اگر جلوس کو روکا جاتا تو احتجاجی مظاہرے ہوتے، باالفاظ دیگر فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دینے کے واضح مقصد کے تحت ایک غیرقانونی مسلح جلوس کو پولیس نے اجازت دی اور اس کے بعد پولیس نے ان لوگوں کو گرفتار کرلیا جو سازش کا نشانہ بنے تھے۔
غیرقانونی جلوس میں شریک افراد کی اشتعال انگیز و پرتشدد کارروائیوں کے بعد مسجد کے باہر جلوس پر پتھراؤ کیا گیا۔ ایک مسلم شخص کو جسے دیسی ساختہ بندوق استعمال کرتے ہوئے دیکھا گیا، گرفتار کرلیا گیا لیکن جلوس میں پستول رکھنے والوں کے خلاف آرمس ایکٹ کے تحت کارروائی نہیں کی گئی۔ ان لوگوں کے خلاف بھی کارروائی کی جانی چاہئے۔ ہاں گرفتار کئے گئے پانچ ہندوؤں میں چار ایسے ہیں جن کا ایک ہی خاندان سے تعلق ہے اور اس خاندان کا سربراہ یا صدر خاندان سرکاری اراضی پر تعمیر کی گئی مندر کا پجاری ہے۔ اس خاندان پر سازش کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اگر ان تمام واقعات کو یکجا کیا جائے تو مکمل طور پر یکطرفہ تحقیقات و کارروائی کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کا بنیادی مقصد مسلم برادری کو ذمہ دار قرار دے کر نشانہ بنانا اور انہیں بدنام کرنا ہے۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ دہلی بی جے پی کے صدر آدیش گپتا نے شمالی دہلی بلدی کارپوریشن کے میئر کو ایک مکتوب روانہ کرتے ہوئے فسادیوں اور سماج دشمن عناصر کی غیرقانونی تعمیرات کو ختم کرنے کیلئے بلڈوزر بھیجنے پر زور دیا۔ حد تو یہ ہے کہ بی جے پی کے آفیشیل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر یہ سوال کیا گیا کہ کیا بلڈوزر دہلی پہنچیں گے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مرکزی حکومت نے مطلوبہ پولیس فراہم کردی اور 20 اپریل کو بلڈوزرس سی بلاک تک پہنچ کر سڑک پر تعمیرات کو منہدم کرنا شروع کردیا۔ یہ عمل انتخابی فوائد کے مقصد سے کیا گیا ہے۔ یہ غیرقانونی تعمیرات کے خلاف مہم نہیں تھی بلکہ پوری طرح غیرقانونی مہم تھی۔ بلدیہ نے بناء کسی نوٹس کے مسجد کی 12 دکانات منہدم کردیں۔ مسجد کا گیٹ بھی ٹوٹ گیا۔ ملحقہ دکانات کی ایک اور صف کو گرادیا گیا جن میں چند ہندوؤں کی دکانات بھی شامل ہیں۔ اس دن کم از کم 100 غریب دکانداروں اور سڑکوں پر کاروبار کرنے والوں کی روزی روٹی اجڑ گئی۔ مجھے جب 10:50 بجے دن پتہ چلا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود انہدامی کارروائی نہیں روکی گئی، بچے اور عورتیں رو رہی تھیں اور بلڈوزروں کے ذریعہ جو کچھ کیا جارہا تھا، وہ توہین عدالت تھا۔