بلڈوزر کارروائی ’غیر قانونی‘ سپریم کورٹ میں 17 ستمبر کو دوبارہ سماعت

,

   

کسی شخص کا ملزم یا مجرم ہونا غیرمنقوبہ جائیداد کو ڈھانے کا جواز نہیں ، گائیڈ لائنس تیار کرنے کی ہدایت

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے پیر کو ’بلڈوزر کاروائی ‘ پر سخت تبصرے کئے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ کسی کے گھر کو صرف اس لیے کیسے گرایا جا سکتا ہے کہ وہ شخص ملزم یا مجرم ہے۔ عدالت نے کہا کہ گھر گرانے سے پہلے پورے ملک کیلئے گائیڈ لائنز جاری کی جائیں۔ یہ معاملہ اس وقت پیدا ہوا جب سینئر ایڈوکیٹ دشینت دَوے نے عدالت سے ’بلڈوزر کاروائی‘ کو روکنے کیلئے ہدایات جاری کرنے کی درخواست کی۔سپریم کورٹ کے جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس کے وی وشواناتھن کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ ایک غیر منقولہ جائیداد کو محض اس لیے منہدم نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی ملزم ہو۔ ایس جی مہتا نے کہا کہ انہدام تب ہی ہو سکتا ہے جب کوئی ڈھانچہ غیرقانونی طور پر بنایا گیا ہو، تاہم، انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس معاملے کو عدالت کے سامنے غلط طریقے سے پیش کیا جا رہا ہے، اگر آپ اس سے متفق ہیں تو ہم رہنما خطوط جاری کریں گے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے لیکن اس کیلئے مناسب عمل ہونا چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ اگر تعمیرات غیر قانونی ہیں تو ٹھیک ہے لیکن اس میں کچھ باقاعدگی ہونی چاہیے، ہم طریقہ کار طے کریں گے۔ جسٹس وشواناتھن نے پوچھا کہ ایسے معاملات سے بچنے کیلئے ہدایات کیوں نہیں دی جا سکتیں۔ عدالت نے کہا کہ پہلے نوٹس جاری کیا جائے، پھر جواب دینے کیلئے وقت دیا جائے، قانونی چارہ جوئی کیلئے وقت دیا جائے، تب ہی مسماری ہونی چاہیے۔ بنچ نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ غیر قانونی تعمیرات کا دفاع نہیں کر رہا ہے۔ عدالت نے کہا کہ ہم کسی بھی غیر قانونی ڈھانچے بشمول مندر کو نہیں بچائیں گے جو سڑکوں میں رکاوٹ بن رہی ہو، لیکن انہدام کیلئے رہنما خطوط ہونا چاہیے۔ سینئر ایڈوکیٹ دشینت دَوے اور سی یو سنگھ نے درخواست گزاروں کی جانب سے جہانگیر پوری، دہلی میں انہدام کی مثال دی، جہاں کچھ معاملات میں کرائے کی جائیدادوں کو بھی منہدم کیا گیا تھا۔دوران سماعت راجستھان کے ادے پور کا معاملہ سامنے آیا، جہاں ایک طالب علم نے اپنے ساتھ پڑھنے والے لڑکے پر حملہ کرنے کے بعد اس کا گھر توڑ دیا۔ عدالت نے اسے غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی کے بیٹے نے جرم کیا ہے تو اس کا گھر گرانا درست طریقہ نہیں ہے۔ عدالت نے کہا کہ اس معاملے کی 17 ستمبر کو دوبارہ سماعت کی جائے گی اور اس معاملے سے نمٹنے کیلئے تجاویز مانگی ہیں۔