بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ برہم ،متاثرین کو دوبارہ تعمیر کی اجازت

,

   

کسی بھی عمارت کو گرانے سے پہلے پیشگی نوٹس دیا جانا لازمی ہوگا
عتیق احمد کے پڑوسیوں کی عرضی پر یو پی حکومت کو ہدایات

نئی دہلی : اتر پردیش کے پریاگ راج میں بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ نے حیرت کا اظہار کیا ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے درخواست گزاروں کو اپنے گھر دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت دینے کا راستہ دکھایا ہے اور ساتھ ہی ریاستی حکومت کو سخت ہدایات دی ہیں۔ درحقیقت، درخواست گزاروں نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے ان کے گھروں کو گینگسٹر عتیق احمد کی زمین کا حصہ سمجھ کر منہدم کر دیا تھا۔ عتیق احمد کو 2023 میں قتل کر دیا گیا تھا۔یہ کیس جسٹس ابھیاس ایس اوکا اور جسٹس اْججَل بھویان کی بنچ کے سامنے زیرِ سماعت تھا۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ درخواست گزاروں کو اپنے خرچ پر گھروں کو دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے گی، لیکن کچھ شرائط ہوں گی، جیسے کہ مقررہ وقت میں اپیلٹ اتھارٹی کے سامنے اپیل دائر کرنا۔ اگر اپیل مسترد ہو جاتی ہے تو درخواست گزاروں کو اپنے ہی خرچ پر دوبارہ انہدام کرنا ہوگا۔ عدالت نے کہاکہ ہم ایسا حکم دیں گے کہ وہ اپنے خرچ پر گھر بنا سکتے ہیں اور اگر اپیل مسترد ہو جاتی ہے تو ان ہی کو گھر گرانا بھی ہوگا۔اس معاملے میں درخواست گزاروں میں ایڈوکیٹ ذوالفقارحیدر، پروفیسر علی احمد، دو بیوائیں اور ایک اور شخص شامل تھے۔الہ آباد ہائی کورٹ میں درخواست مسترد ہونے کے بعد متاثرین سپریم کورٹ پہنچے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکام نے ہفتہ کی رات دیر گئے نوٹس جاری کیے اور اگلے ہی دن ان کے گھروں کو گرا دیا گیا۔ انہیں اس کارروائی کو چیلنج کرنے کا موقع تک نہیں ملا۔اٹارنی جنرل آر وینکٹارامانی نے عدالت میں کہا کہ درخواست گزاروں کو 8 دسمبر 2020 کو نوٹس موصول ہوا تھا، اور بعد میں جنوری اور مارچ 2021 میں بھی نوٹس دیئے گئے تھے۔ انہوں نے کہاکہ ایسی صورتحال میں یہ کہنا غلط ہوگا کہ مناسب قانونی طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا۔’’ تاہم، عدالت نے ریاستی حکومت کے دلائل کو مسترد کر دیا اور کہا کہ نوٹس غلط طریقے سے دیئیگئے تھے۔عدالت نے مزید کہاکہ ریاست یہ نہیں کہہ سکتی کہ اگر ان لوگوں کے پاس ایک سے زیادہ گھر ہیں، تو ہم قانونی عمل کو نظر انداز کریں گے اور انہیں انہدام کے خلاف اپیل کرنے کا وقت بھی نہیں دیں گے۔ عرضی گزاروں نے اپنے آپ کو لیز ہولڈرز قرار دیا اور کہا کہ وہ زمین کی لیز کو فری ہولڈ میں تبدیل کرنے کے لیے عرضی دے چکے تھے۔
ان کے مطابق، انہدام کا نوٹس یکم مارچ 2021 کو جاری ہوا، جو 6 مارچ کو موصول ہوا، اور 7 مارچ کو انہدامی کارروائی شروع کر دی گئی۔ اس کی وجہ سے انہیں اتر پردیش اربن پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ کے سیکشن 27 (2) کے تحت اس حکم کو چیلنج کرنے کا حق نہیں ملا۔نومبر 2024 میں سپریم کورٹ نے ایک گائیڈ لائن جاری کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ کسی بھی عمارت کو گرانے سے پہلے پیشگی نوٹس دیا جانا لازمی ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی مکینوں کو جواب دینے کے لیے کم از کم 15 دن کی مہلت دی جائے گی اور یہ نوٹس صرف رجسٹرڈ ڈاک کے ذریعے بھیجا جائے گا۔عدالت نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ متاثرین کو ذاتی طور پر افسران کے سامنے پیش ہونے کا موقع دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ، اگر انہدام کا حتمی حکم جاری بھی کر دیا جائے، تو بھی اسے 15 دن تک روکا جائے گا تاکہ متاثرہ شخص یا تو گھر خالی کر سکے یا عدالتی چیلنج دائر کر سکے۔