رام پنیانی
رام نومی سے لے کر ہنومان جینتی کے درمیان جو ناخوشگوار واقعات پیش آئے، اس نے ساری قوم کو دہلا کر رکھ دیا اور ان واقعات نے جو ہماری قوم پر اثر مرتب کیا، وہ ساری قوم کو دہلاکر جھنجوڑنے سے کہیں زیادہ ہے۔ ’’نفرت کے بلڈوزر‘‘ نے نہ صرف چند مکانات و دکانات کو منہدم کیا بلکہ ہمارے دستوری اقدار کو مسمار کردیا۔ اب جبکہ جہانگیر پوری میں بلدیہ کی کارروائی اور بلڈوزروں کے استعمال کے ذریعہ دیئے گئے زخم تازہ ہیں، ایسے میں ایک اور تنازعہ چھیڑ دیا گیا اور وہ تنازعہ مساجد کے لاؤڈ اسپیکرس کو لے کر شروع کیا گیا ہے۔ اس طرح کے تنازعات دراصل تخریبی سیاست کا ایک حصہ ہے۔ جہاں تک لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کا سوال ہے، بیشتر مسلم گروپس عدالتوں کے احکامات کو مان رہے ہیں، جبکہ بی جے پی ۔ ایم این ایس (راج ٹھاکرے) فرقہ وارانہ راہ پر چل پڑے ہیں۔ ان لوگوں نے انتباہ دیا ہے کہ اگر مساجد سے لاؤڈ اسپیکرس نہیں ہٹائے گئے تو پھر وہ عام مقامات خاص طور پر مساجد کے سامنے ہنومان چالیسا پڑھیں گے۔ ایم این ایس سربراہ راج ٹھاکرے نے یہ دھمکی مہا آرتھی کے خطوط پر دی جو ممبئی میں شہادت بابری مسجد کے بعد پھوٹ پڑے تشدد (1992-93ء) کے پیش نظر ایجاد کی گئی تھی۔ ہنومان چالیسا کو اب تخریبی سیاست کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ ایک اچھی بات یہ ہے کہ حکومت مہاراشٹرا نے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان دینے کو مسئلہ بنانے والوں سے نمٹنے کی کوشش کی ہے اور کُل جماعتی اجلاس طلب کرتے ہوئے اس مسئلہ کو حل کرنے کی اچھی کوشش کی لیکن اس کُل جماعتی اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے بی جے پی نے اپنا موقف واضح کردیا۔ دوسری جانب راج ٹھاکرے بھی ریاستی سیاست میں اپنی جگہ بنانے کا موقع تلاش کررہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس مسئلہ پر شدت اختیار کی ہے۔ ہنومان چالیسا کے مسئلہ پر لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا کرنے کی پاداش میں بی جے پی کے لیڈروں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بی جے پی جان بوجھ کر مہاراشٹرا میں اذان کو مسئلہ بنا رہی ہے اور راج ٹھاکرے کی بھرپور تائید کررہی ہے۔ ہر کوئی پچھلے چند ہفتوں میں نفرت کی بدترین لہر پیدا کرنے کی جو کوششیں کی گئی ہیں، اور جو نفرت تباہ کن سطح پر پہنچ گئی ہے، اسے واضح طور پر دیکھ سکتا ہے۔ نفرت کی بڑھتی سطحوں کو ’’دی کشمیر فائیلس‘‘ جیسی فلم نے بڑھاوا دیا ہے۔ یہ ایسی فلم ہے جس کی سرپرستی خود ریاست کررہی ہے، کیونکہ ریاست نے اس فلم کو ٹیکس سے استثنیٰ دیا ہے اور دوسری طرف بی جے پی قائدین ’’دی کشمیر فائیلس‘‘ جیسی فلم دیکھنے کیلئے عوام کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ کئی مقامات پر بی جے پی قائدین نے فلم کے ٹکٹس خرید کر ان ٹکٹوں کو عوام میں تقسیم بھی کیا ہے۔ اس فلم پر وہ لوگ تنقید کررہے ہیں جن پر بی جے پی اور اس کے قبیل کی تنظیموں نے آزاد خیال ہونے کا لیبل چسپاں کیا ہے۔ اب ’’آزاد خیالی‘‘ کا لفظ ان ہندوؤں کو ذلیل کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے جو سیاست کو مذہب سے جوڑنے کے سخت مخالف ہیں اور جو ہندوستان کی گنگا ۔ جمنی تہذیب اور اس کی روایات کی برقرار کے خواہاں ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو اس فلم اور اس کے ذریعہ فروغ دیئے جارہے نظریہ کے مطابق ہندوستان کے سکیولرازم کو اِسلامی بنیاد پرستی سے شدید خطرہ لاحق ہے اور تنازعہ کشمیر اس کی مثال ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سری سری روی شنکر سے لے کر آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت، وزیراعظم نریندر مودی نے ’’دی کشمیر فائیلس‘‘ فلم کی یہ کہتے ہوئے زبردست ستائش کی کہ یہ فلم سچائی دکھا رہی ہے۔ اس فلم کے بنانے والے وویک اگنی ہوتری خود یہ کہتے ہیں کہ وہ صرف ایک فلم ساز ہی نہیں ہیں بلکہ ان کا اپنا ایک ایجنڈہ ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ وویک اگنی ہوتری کی فلم نے سماج کو منفی سمت میں ڈھکیل دیا ہے اور اس کا اندازہ حالیہ ہفتوں کے دوران پیش آئے ناخوشگوار واقعات سے لگایا جاسکتا ہے۔ بائیں بازو کے آزاد خیال قائدین فلم کے منفی اثر کو لے کر کافی فکرمند ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فلم میں آدھا سچ دکھایا گیا ہے اور واقعات کو یکطرفہ پیش کرتے ہوئے اس کی اپنی مرضی کے مطابق تشریح کی گئی ہے۔ کشمیر میں علیحدگی پسندی کا آغاز 1950ء کے دہے سے شروع ہوا تھا لیکن اس سے بنیاد پرستی یا مسلم فرقہ واریت کا کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ کشمیر کی خودمختاری کچلنے کے باعث علیحدگی پسندی کا رجحان بڑھنے لگاحالانکہ دستور کی دفعہ 370 اور 35A کے تحت کشمیر کے عوام کو خودمختاری کی طمانیت دی گئی تھی۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ علیحدگی پسندی نے اپنے ابتدائی دور میں اسے کشمیریت کا نام دیا۔ بہرحال دی کشمیر فائیلس نے مسلمانوں کو کشمیر کے حالات کیلئے ذمہ دار قرار دیا گیا ہے جبکہ کشمیری پنڈتوں اور موجودہ حالات کیلئے جگموہن اور بی جے پی کی حمایت یافتہ وی پی سنگھ حکومت ذمہ دار ہے۔ اس فلم میں کشمیری مسلمانوں کی پریشانیوں کو پیش نہیں کیا گیا اور یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ 50,000 سے زائد مسلمانوں کو کشمیر چھوڑنا پڑا۔ آج بی جے پی اور اس کی ہمنوا جماعتیں وادی میں کشمیریوں کے قتل اور انہیں نکال دیئے جانے کے حوالے سے چیخ و پکار کررہی ہیں، لیکن انہیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ وادی کشمیر میں صرف 89 پنڈت مارے گئے تھے جبکہ دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والے مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والے افراد کی تعداد 1,635 رہی۔تخریبی طاقتیں ، بار بار اسلامی بنیاد پرستی کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہہ رہی ہیں کہ اسلامی بنیاد پرستی ملک کا سکیولر کردار تبدیل کررہی ہیں ۔ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ اسلامی بنیاد پرستی کو ایک بہانے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ہندوستان کے جمہوری نظریہ کو تباہ کیا جارہا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہندوستان کے جمہوری نظریہ کو خطرہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلاموفوبیا کے رجحان میں جان بوجھ کر اضافہ کیا جارہا ہے، اس کے لئے جھوٹ اور دروغ گوئی کا سہارا لے کر یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ قرون وسطی میں مسلم بادشاہوں نے مندروں کو ڈھایا اور ہندوستان میں اسلام تلوار کے زور پر پھیلا۔ حد تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی سے متعلق بھی ابنائے وطن میں غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں اور ان غلط فہمیوں کے نتیجہ میں مسلمانوں کے تئیں نفرت میں اضافہ ہوا ہے او ر مسلمانوں کے تجارتی بائیکاٹ پر بھی زور دیا جارہا ہے۔ ہمارے مذہبی جلوس ؍ تہواروں کو اقلیتوں کو اشتعال دلانے اور پھر ان کے مکانات کو منہدم کرنے کے مواقع میں تبدیل کیا جارہا ہے جس کا حال ہی میں ہم نے مشاہدہ کیا ہے اور عام مقامات بالخصوص مساجد کے سامنے ہنومان چالیسا پڑھنا مذہب کی سیاست کی پیش قدمی کا اگلا مرحلہ ہے۔