بنگالی بولنے والوں کو غیرملکی ماننے پر مرکز سے وضاحت طلبی

   

نئی دہلی، 29 اگست (یو این آئی) سپریم کورٹ نے جمعہ کو مرکزی حکومت سے یہ وضاحت طلب کی کہ کیا کسی مخصوص زبان کے استعمال کی بنیاد پر کسی کے ساتھ غیر ملکی شہری جیسا سلوک کیا جا سکتا ہے ؟ عدالت نے مفاد عامہ کی ایک عرضی پر سماعت کے دوران یہ تبصرہ کیا۔اس عرضی میں الزام لگایا گیا تھا کہ بنگالی مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دے کر غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے ۔ جسٹس سوریہ کانت، جسٹس جوی مالیا باگچی اور جسٹس وِپل ایم. پنچولی پر مشتمل بینچ نے مغربی بنگال مہاجر مزدور فلاحی بورڈ کی جانب سے پیش ہوئے وکیل پرشانت بھوشن کے دلائل سنے ۔ وکیل بھوشن نے عدالت کو بتایا کہ ایک حاملہ خاتون کو صرف اس بنیاد پر زبردستی ملک بدر کر دیا گیا کیونکہ وہ بنگالی زبان بولتی ہے ۔
انہوں نے دلیل دی کہ چونکہ بنگالی زبان بنگلہ دیش میں بھی بولی جاتی ہے ، اس لیے یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ جو بھی بنگالی بولے ، وہ بنگلہ دیشی ہے ۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ حکام کسی شخص کو یہ طے کیے بغیر کہ آیا وہ غیر ملکی شہری ہے یا نہیں، کس طرح ملک بدر کر سکتے ہیں؟ سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے مفاد عامہ کی عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے دلیل دی کہ یہ عرضی کسی فرد کے ذریعے نہیں، بلکہ ایک ادارے کی طرف سے دائر کی گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان دنیا کی غیر قانونی امیگریشن کا دارالحکومت نہیں ہے ، اس کے لیے یہاں ایک منظم نظام موجود ہے ۔ تاہم، بینچ نے مرکز سے یہ وضاحت طلب کی کہ آیا حکام نے غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کے لیے زبان کو بنیاد بنایا تھا۔ جسٹس باگچی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک مشترکہ ثقافت اور وراثت ملی ہے [؟] پنجاب اور بنگال زبان اور روایت میں مماثلت رکھتے ہیں، ہمیں صرف سرحدیں جدا کرتی ہیں۔ اسی لیے ہم نے مرکزی حکومت سے وضاحت طلب کی ہے ۔ عدالت میں اس کیس کی سماعت اب 11 ستمبر تک ملتوی کر دی گئی ہے ۔